نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

ستمبر, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

ایک نسل پرست انگریز کو ہندوستانی کا جواب

  ساری دنیا پر پھیلی حکومت نے انگریزوں کو ایک عجیب سے گھمنڈ اور نسلی برتری کے بخار میں مبتلا کیا ہوا تھا. وہ افریقہ اور ایشیاء کے اپنے غلام ملکوں کے باشندوں کو اپنے برابر ماننے کو تیار نہ تھے. لندن یونیورسٹی میں ایک ہندوستانی طالب علم کو اپنے انگریز پروفیسر پیٹرز کی طرف سے اکثر نسلی بنیاد پر نفرت کا سامنا کرنا پڑتا تھا. ایک دن پروفیسر پیٹرز ڈائننگ روم میں لنچ کر رہے تھے کہ وہ ہندوستانی نوجوان بھی اپنی ٹرے لئے مسٹر پیٹرز کی میز پر آ بیٹھا. پیٹرز نے نوجوان کو گھورتے ہوئے کہا "کیا تمہیں نہیں پتہ ایک پرندہ اور سور ساتھ نہیں کھا سکتے؟" نوجوان نے مسکرا کر جواب دیا. "Don't worry Sir. I'll fly to other table." پروفیسر کا پارہ چڑھ گیا اور اس نے اس ہندوستانی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا. دوسرے دن بھری کلاس میں پرفیسر پیٹرز نے ہندوستانی نوجوان سے دریافت کیا کہ اگر تمہیں راستے میں 2 بیگ ملیں ایک دولت اور دوسرا دانائی سے بھرا ہو تو تم کون سا اٹھاؤ گے؟ نوجوان نے ہچکچاہٹ کے بغیر جواب دیا "دولت". پروفیسر نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا "میں تمہاری جگہ ہوتا تو "د

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

اساتذہ ۔۔۔کرونا کے گم نام ہیروز /Unsung Heroes of Covid-19 Pandemic

کروناکی وبائی صورت حال کےدوران ڈاکٹرز،نرسز، پیرا میڈیکل اسٹاف, ایمبولینس ڈرائیورز, پولیس, سیکیورٹی فورسز مختلف رضاکار اداروں نے جس طرح جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات انجام دیں اس کے لئے وہ سب واقعی اس خراج تحسین کے مستحق ہیں جو معاشرے کے سبھی طبقات کی جانب سے انہیں پیش کیا جارہا ہے مگر یہاں ایک طبقہ اور بھی ہے جس نے لاک ڈاؤن اور کورونا کی وبائی صورت حال کے دوران گھروں کے اندر رہ کر بھی قوم کے مستقبل کی تعمیر کی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوئے اور انہیں ایک نئے اچھوتے اور منفرد  طریقے سے سرانجام دیا جس کے لئے وہ اس خراج تحسین کے مستحق ہیں جو بدقسمتی سے انہیں اب تک پیش نہیں کیا گیا. یہ طبقہ ہمارے اساتذہ کا ہے جو آج تک اس عزت و توقیر سے محروم رہا ہے جو کہ ان کا استحقاق ہے. ہم ان کا خود پر واجب الادا یہ حق تو کیا ادا کرتے الٹا انہیں بیگار کا مزدور بنا ڈالا. اپنی مخصوص ذمہ داریوں سے ہٹ کر بھی جب کبھی الیکشن ہوں, مردم شماری ہو یہاں تک کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم ہو یا ڈینگی کی ہنگامی صورت حال ٹھنڈے دفاتر میں بیٹھے کابینہ کے معزز اراکین, صوبائی سیکریٹریز اور ضلعی ڈپٹی کمشنرز صاحبان کی نگاہ انتخاب ہم

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں

یہ پاکستان ہے فرانس نہیں

      Sorry Mam,Motor way is not in France   دنیا کے مختلف براعظموں اور ملکوں میں پھیلے وہ  لاکھوں افراد جنہیں عرف عام میں اورسیز پاکستانی یا سمندر پار پاکستانی کہا جاتا ہے میری نظر میں بڑی عجیب و غریب مخلوق ہیں. یہ لوگ اپنی تعلیم ہنر اور قابلیت کی بنیاد پر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنا گھر محلہ گاؤں شہر اور ملک چھوڑ کر پردیس جاتے ہیں ان کی جدائی کادرد سہتے ہیں. اپنے رسوم و رواج ماحول معاشرت سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور بالکل مختلف رسوم و روایات زبان تہذیب اور بودوباش  کے درمیان بادل نخواستہ زندگیاں گذارتے ہیں. ذرا سوچئے کیا اتنی بڑی قربانی کیا صرف پیسہ کمانے کے لیے دی جا رہی ہوتی ہے؟ اتنی بڑی قیمت کیا صرف معاشی منفعت کے حصول کے لیے ادا کی جارہی ہوتی ہے؟ کیا ان کا اپنا وہ ملک جہاں بیرون ملک سے لوگ پیسہ کمانے آتے ہیں معاشی اعتبار سے اتنا بانجھ ہوسکتا ہے کہ خود اپنے شہریوں کو خاطرخواہ روزگار نہ مہیاء کرسکے.پاکستان میں  جہاں سعودی, چینی, ترک اور ملائشین بلینز میں سرمایہ کاری کر رہے ہوں اور افغان ایرانی بنگلہ دیشی شہری کامیابی سے کاروبار اور ملازمت کرتے ہوں وہ پاکستان اپنے شہریوں کو روزگا

خود شناسی

 حضرت امام مالک رحمتہ علیہ فرماتے ہیں "ہر  انسان کی دو پیدائش ہیں. پہلی جب وہ اس دنیا میں آتا ہے اور دوسری جب وہ دنیا میں اپنی آمد کامقصد جان لیتا ہے.  پہلی پیدائش میں آپ کا کوئی دخل نہیں. آپ کب, کہاں, کس کے گھر پیدا ہوں؟ کس کی اولاد بنیں؟ یہ خالق کائنات کا مکمل صوابدیدی اختیار ہے.اس میں وہ خود آپ سے بھی مشورہ نہیں کرتا.اصل اہمیت آپ کی دوسری پیدائش کی ہے. اس میں مکمل عمل دخل خود آپ کی ذاتی محنت اور پرخلوص کوشش کا ہوتا ہے. زندگی کا یہ راز کبھی جھوٹے انسان پر منکشف نہیں ہوتا. اللہ رب العزت اس کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے اور اس نے اس کائنات کی بنیاد بھی سچ پر رکھی ہے. میں کون ہوں؟ کس لیے ہوں؟ یہ دونوں سوال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں. آپ کی دنیا میں آمد حادثاتی نہیں. آپ کا دنیا میں آنا خالق و مالک کائنات کی عظیم پلاننگ کا حصہ ہے. دنیا میں آپ کی آمد کو اللہ نے ضروری سمجھا. آپ نہ آتے تو اللہ کی پلاننگ کے مطابق کائنات کی تکمیل نہ ہو پاتی. کائنات نامکمل رہ جاتی.۔  ایک مصور ہاتھ میں برش اٹھا کر جب کینوس پر مختلف رنگوں سے ایک شاہکار تخلیق کرتا ہے تو دیکھنے والے نہیں جانتے کہ کہ کینوس پر فلاں

تعریف کریں قابلِ تعریف بنیں

   اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ ہم بہت اچھے لوگ ہیں  ،پیارے لوگ ہیں ۔اچھی خوش بختی کا سامان مہیا کرتےہیں ایک دوسرے کے لیے لیکن تعریف و توصیف کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ رواج ابھی بن نہیں سکا اور ہم نے اس کے بارے میں غور نہیں کیا کہ تعریف وتوصیف بھی واجب ہے۔کہیں واجب نہیں ہے تو بھی کی جانی چاہیئے تاکہ انسانوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی اور ایک یونیٹی پیدا ہو۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں آدمی کے چلے جانے کے بعد اس کی تعریف ہوتی ہے۔اگر آپ لاہور کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب میں جا کر دیکھیں تو بہت سے کتبے آپ کو ایسے نظر آئیں گے جن کے اوپر مرحوم کا نام، تاریخ پیدائش،  تاریخ وفات لکھی ہوگی۔پھر اس کے ساتھ ساتھ توصیفی کلمات بھی ہوں گے اب وہ بے چارہ باہر نکل کر تو نہیں دیکھ سکتا کی کتبے پر کیا لکھا ہے،یہ تو اس کے کام نہیں آیا۔بہتر یہ تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے اس کی کچھ تعریف و توصیف ہوجائےتو اس کو کچھ سہارا ہو اسکو پتا چلے کہ میرے اردگرد رہنے والے جو لوگ ہیں وہ بہت تقویت عطا کرنے والے لوگ ہیں۔ اپنے دور کے کامیاب ترین انسان ایمرسن کا قول ہے۔" جو شخص بھی مجھ سے ملتا ہے وہ کسی نہ

مضبوط تعلقات-لمبی اور صحت مند زندگی

 ذرا سوچیے کہ کیا ہو اگر ہم لوگوں کا مطالعہ و مشاہدہ ان کی نوعمری سے ان کی ضعیفی یعنی 65, 75 یا 85 سال کی عمر تک کریں؟ فی الحقیقت اگر ایسا ممکن ہو تو ہم کیا کیا نتائج اخذ نہ کرسکیں گے.جی ہاں, امریکہ میں 724 افراد پر ایک ایسی ہی   study تحقیق کی گئی جو 75 سالوں میں مکمل ہوئی. ان پر ان کی نوعمری سے مطالعہ کا آغاز کیا گیا. ان 724 میں سے کم و بیش 60 افراد اب بھی زندہ ہیں اور برضا و رغبت ابتک خود کو اس تحقیق کا حصہ بنائے ہوئے ہیں.ان میں سے زیادہ تر عمر کی نویں دہائی میں داخل ہوچکے ہیں. ان سب پر اسوقت تحقیق کا آغاز کیا گیا تھا جب یہ سب ٹین ایجر تھے.ان کے انٹرویوز لیے گئے. طبی معائنے بھی کیے گئے. ان کے گھر جاکر والدین سے ملاقاتیں بھی کی گئیں اور ان کے بھی انٹرویوز ریکارڈ کیے گئے. یہ نوعمر پھر سن بلوغت کو پہنچے.زندگی کے سبھی شعبوں انہوں نے مختلف کیرئرز کا انتخاب کیا. ان میں سے کچھ فیکٹری ورکرز بنے.کچھ نے مزدوری کی. کچھ لوگ ڈاکٹر بنے اور کچھ نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا. ایک صاحب امریکی صدر بھی منتخب ہوئے. کوئی ایک دہائی قبل ان کی بیویوں سے جب اس تحقیق کا حصہ بننے کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو

فلسطین اور اسرائیل

    ماہ اگست میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کا اعلان اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کے معاہدے پر دستخط نے مشرق وسطی کی لمحہ لمحہ تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کو بظاہر ایک نیا موڑ دیا یے مگر خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کےلئے یہ کوئی اتنا غیر متوقع فیصلہ بھی نہیں جیسا کہ اس پر چند ممالک کیجانب سے آنیوالے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے. فلسطینی اتھارٹی کے صدر کی جانب سے امارات سے اپنے سفیر کی واپسی اور چند اور ممالک کی جانب سے لفاظی کی حد تک مذمت جیسے اقدامات بھی محض رسمی کاروائی ہیں ۔ایک جانب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان کا یہ کہنا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا انکا فیصلہ غرب اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری اور فلسطینی زمین کے انضمام کا اسرائیلی عمل روکنے سے مشروط ہے تو دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاھو کا واضح اعلان کہ "آباد کاری اور انضمام کا عمل محض موخر ہوا ہے اور کسی صورت ان علاقوں سے دستبردار نہیں ہوں گے" اصل صورتحال کو واضح کرتا ہے۔ سعودی ردعمل میں بظاہر مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے

سورہ رحمان کا منظوم ترجمہ از جوش ملیح آبادی

Sora e Rehman ka manzom trjuma by Josh Maleh Aabadi اے فناانجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا   تیرگی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھائےگا اس تمرد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا کیا کریگا سامنے سے جب  حجاب اٹھ جائےگا کب تک آخراپنے  رب کی نعمتیں جھٹلائےگا یہ سحر کا حسن یہ سیارگاں اور یہ فضاء یہ معطر باغ یہ سبزہ یہ کلیاں دل ربا یہ بیاباں یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا سوچ تو کیا کیا کیا ہے تجھ کو,قدرت نے عطا کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا خلد میں حوریں تیری مشتاق ہیں آنکھیں اٹھا نیچی نظریں جن کا زیور جن کی آرائش حیا جن و انساں میں کسی نے بھی نہیں جن کو چھوا جن کی باتیں عطر میں ڈوبی ہوئی جیسے صبا کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا اپنے مرکز سے نہ چل منہ پھیر کر بہر خدا بھولتا ہے کوئی اپنی انتہاء اور ابتداء یاد ہے وہ دور بھی تجھکو کہ جب تو خاک تھا کس نے اپنے سانس سے تجھکو منور کردیا کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا سبز گہرے رنگ کی بیلیں چڑھی ہیں جابجا نرم شاخیں جھومتی ہیں رقص کرتی ہے صبا پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں دلفریب و خوش نما جن کا ہر ریشہ ہے قند وشہد میں ڈوبا ہوا کب تک آخر اپنے رب کی نع

یقین کی طاقت

حضرت واصف علی واصف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بڑی منزل کا مسافر کبھی چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا۔انسان کے قد  کے قد کا پتا اس کےجھگڑوں سے چلتا ہے۔     بقول اشفاق احمد صاحب جنہیں منزل کو پانا ہوتا ہے۔وہ کتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔اللہ کی رحمت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کو بڑا سوچنا چاہیئے۔یہ بڑا جرم ہے کہ انسان اپنی سوچ کو محدود کر لے۔دینے والی ذات اتنی بڑی اور لا محدود ہے تو اس سے توقعات کیوں نہ بڑی باندھی جائیں۔جب تک آپ کا خواب بڑا نہیں ہو گا آپ کی سوچ اور آپ کا فلسفہ بھی بڑا نہیں ہوسکتا۔اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں اور توانائیوں کو  چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی نذر  ہر گزنہ کریں۔                          آپ دوسروں کی پرواہ کریں گے تو دوسرے بھی آپ کی پرواہ کریں گے۔آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو آپ کو بھی عزت ملے گی۔آپ بانٹنا شروع کریں گے تو آپ کو ملنا شروع ہو جائے گا۔اور حتمی طور پر آپ کامیاب ہوں گے۔ بروس لپٹن کے بقول جب تم یقین کر لیتے ہو تو تمھارا ذہن رستہ بھی تلاش کر لیتا ہے۔جب آپ بڑا خواب دیکھتے ہیں پھر اسباب کو نہ دیکھیں کہ ایسا کرنا آپ کے اندر مایوسی کو جنم دے گا۔ جب آپ کے اندر منزل پر یقین ہو