نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اکتوبر, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

بحث و تکرار _____ آپ کی اصل ہار

 مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے حوالے سے ایک بڑا مشہور واقعہ ہم میں سے اکثریت کے مطالعہ سے گذرا ہوگا کہ ایک بار وہ کلام الہی کی کتابت میں مشغول تھا کہ پاس موجود ایک مہمان نے اس کی لکھی ایک آیت غلط قرار دے کر اسے دوبارہ درست لکھنے کے لیے کہا. شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے اول اول اپنی لکھی آیت کو درست قرار دیا جس پر مہمان نے بضد ہو کر اس آیت قرآنی پر اپنے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے اسے دوبارہ ٹھیک طرح سے لکھنے کا مشورہ دوہرایا.  اس بار اورنگ زیب نے وہ آیت مٹا کر مہمان کی تجویز کے مطابق دوبارہ تحریر کردی جس پر مہمان کے چہرے پر طمانیت کے آثار نمایاں ہوگئے اور اس کا رویہ شہنشاہ کی جانب خوش گوار ہوگیا. کچھ دیر بعد جب وہ مہمان رخصت ہوا تو اورنگ زیب نے اس کے مشورے کے مطابق لکھی آیت کو مٹا کر دوبارہ اسی طرح تحریر کردی جس طرح اس نے پہلے تحریر کی تھی. مصاحبین نے حیران ہو کر دریافت کیا جہاں پناہ آپ نے تو اس شخص کے کہے کو درست تسلیم کر کے آیت تبدیل کی تھی تو اب آپ نے دوبارہ اس طرح کیوں تحریر کی جسے آپ غلط مان چکے تھے. شہنشاہ اورنگ زیب نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں جانتا تھا کہ درست آیت وہی ہے جس ط

دل جیتنے والے افراد

IMPRESSIVE AND HEART WINNING PERSONALITY.                   ہر روز کی طرح اس روز بھی مختلف عدالتوں میں پیش ہونے کے بعد میں ایک دیوانی مقدمہ میں مدعی مقدمہ کی جانب سے پیشی کے لئے ایک سول کورٹ میں حاضر ہوا.محترم حج صاحب بیشتر مقدمات نمٹا کر کمرہ عدالت سے اپنے چیمبر میں تشریف لے جا چکے تھے. تاہم درجنوں مقدمات کی فائلوں میں گھرا بے چارہ پیشکار اپنے سامنے موجود کاز لسٹ یعنی فہرست مقدمات اور فائلوں میں گم تھا. صبح سے سائلین, وکلاء اور حج صاحبان کے درمیان فائلوں کے انبار سے طلب کیے جانے پر مطلوبہ فائل تلاش کرکے محترم جج صاحب کو پیش کرتے , اس پر ملنے والی ہدایات کو لکھتے , وکلاء اور سائلین کے تند و تلخ سوالات کے کبھی ان کے حسب منشاء تو کبھی خلاف منشاء جوابات دیتے اور ان سےدرخواست اور عرضیاں وصول کرتے کرتے وہ تھکا ہوا اور مضمحل نظر آرہا تھا. میں اسے گذشتہ کئی سالوں سے یہی کام کرتے دیکھ رہا تھا جو اب یقینی طور پر اس کے لئے پرلطف نہیں رہا تھا. اسے دیکھ کر یکلخت میرے دل میں خواہش بیدار ہوئی کہ کیوں نہ اس سے کوئی ایسی بات کی جائے جو نہ صرف اس کے مزاج کے لئے سکون آور ٹانک ثابت ہو بلکہ اس کو مجھے پسن

افسانہ "قرض" از عامر سہیل

  قرض تحریر ۔۔۔۔۔عامر سہیل  اُس نے اپنے ماضی میں لیے گئے قرض کو اتارنے کیلئے ہزار جتن کیے مگر ناکام رہا، اب وہ پورا دن خود کو کوستا رہتا اور ملامت زدہ رہتا کہ اُس نے ایسا ہیچ کام کیا ہی کیوں تھا جس نے اس کی تمام جمع پونجی ختم کر دی، اب اسے زیادہ سے زیادہ پیسے چاہییں تھے مگر اُس کے پاس نہ تو کرنے کو کوئی دھندہ تھا اور نہ ہی وہ ڈھنگ کا ہنر جانتا تھا جس سے قرض اتارے، کیونکہ اس نے بچپن سے اب تک والدین کی متاع پر عیاشی کی تھی مگر والدین کے اس دارِ فانی سے کوچ کرتے ہی اس نے تمام جائیداد اور روپیہ پیسہ دوستوں میں اور جوئے میں اڑا دیا اب یک نہ شُد دو شُد والا معاملہ تھا ایک تو آئے روز قرض خواہ اس کے دروازے پہ آ دھمکتے دوسرا اس پر فاقوں کی نوبت آ چکی تھی اب شعیب شب بھر گھر سے غائب رہنے لگا تھا اور دن بھر پریشان رہتا، گھر والے بھی اُس پر نفرین بھیجتے کہ اُس نے ان کی ہنسی خوشی زندگی کو اجیرن بنا دیا اُس کی بیوی نے ایک کوٹھی پر کام ڈھونڈ لیا اور وہ دوائیوں کا خرچہ اور بچوں کی سکول کی فیس انہیں پیسوں سے جو کام کے نتیجے میں ملتے تھے ادا کرتی اور وہاں سے بچا ہوا کھانا لے کر آتی اور بچوں کا پیٹ پالتی،

کامیاب ازدواجی زندگی کا سو سال پرانا امریکی گر/How to Win Her Heart

سو سال ہونے کو ہیں جب ڈورتھی ڈکس نامی ایک  امریکی  خاتون نے اپنے مقالہ میں مردوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا "جب تک آپ کو خوشنودی حاصل کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا شادی مت کیجئے۔ شادی سے پہلے عورت کی تعریف تو ایک عام رجحان ہے لیکن شادی کے بعد اس کی تعریف نہ صرف ایک ضرورت بلکہ ذاتی تحفظ بھی ہے۔ شادی میں سادگی اور صاف دلی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ تو سیاسی اکھاڑہ ہے. اگر آپ ہر روز عید اور ہر رات شب برات منانے چاہتے ہیں تو بیوی کے سلیقہ اور گھر بار سنبھالنے کے طریقہ کو ہر گز رد مت کیجئے۔ اس کا موازنہ کبھی اپنی والدہ سے مت کیجئے۔ اس کے برعکس ہمیشہ اس کے سگھڑاپے اور سلیقہ کی تعریف کرتے رہیے اور اس کے سامنے ہمیشہ خود کو دل کھول کر مبارک باد دیجئے کہ آپ کو ایسی بیوی ملی ہے جو بیک وقت زہرہ، سرسوتی اور میری این کی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ خواہ گوشت بے لذت اور روٹی جل کر کوئلہ ہو جائے شکایت ہرگز مت کیجئے۔ صرف اتنا کہیے کہ آج کا کھانا تمہارے روزانہ کے معیار کو نہیں چھوسکا۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے معیار پر پورا اترنے کی خاطر وہ کچن کے چولہے پر اپنے آپ کو بھی پکانے سے گریز نہیں کرے گی۔ لیکن یہ عمل ایک دم ہرگز ش

اساتذہ نشانے پر کیوں؟؟؟؟DISCRIMINATORY PROTOCOL

 عزت ماب جناب عمران احمد خان نیازی صاحب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان. . عزت ماب جناب عثمان بوزدار صاحب وزیراعلی پنجاب. السلام و علیکم, کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی ایک خاتون افسر جن کا نام اب راقم کی یاد داشت میں نہیں اور پشاورشہر کی سارہ تواب نامی خاتون ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی اپنے شیرخوار و نونہال بچوں کو گود میں بٹھا کر اپنے دفاتر میں محکمانہ اور پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جنہیں عوامی سطح پر بہت سراہا گیا. متعلقہ محکموں اور حکومتوں کی جانب سے بھی ان تصاویر پر کسی منفی ردعمل کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا جس سے اندازہ ہوا کہ سرکار کو ملازمت پیشہ ماؤں اور ان کے بچوں کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔. اب آئیے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب.  آج سوشل میڈیا پر ضلع میانوالی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری اہجوکیشن کے دفتر سے مورخہ 26/9/2020 کو جاری ہونے والا ایک حکم نامہ معطلی کا عکس بھی وائرل ہوا جس پر مجاز افسر مسمی محمد خلیل پراچہ صاحب کے دستخط بحروف انگریزی بھی ثبت ہیں جس میں عشرت ستار نامی ایک خاتون ٹیچر کو معطل کرتے ہوئے متعلقہ

دو باکمال شاعر، دو خوب صورت خیال

کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا تو بڑے پیار سے بڑے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو اور بے تابی سے فرقت کے خزاں لمحوں میں تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا جب کبھی موڈ میں ا کر مجھے چوما کرتی تری ہونٹوں کی حدت سے میں دھک سا جاتا رات کو جب بھی تو نیندوں سے سفر پر جاتی مرمریں ہاتھ کا اک تکیہ سابنایا کرتی میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا تیری زلفوں کو ،ترے گال کو چوما کرتا جب بھی تو بند قبا کھولنے لگتی جاناں اپنی آنکھوں کو ترے حسن سے خیرا کرتا مجھ کو بےتاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا شاعر: سید وصی شاھ کاش میں ترے بن گوش کا بندا ہوتا کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں صبح کوگرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول میرے کھو جانے پرہوتا ترا دل کتنا ملول تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ

اپنی زندگی آپ جیئیں

 دنیا میں آنے والا ہر انسان اپنے حصے میں کتنی سانسیں  اورکتنا وقت کے کر آیا ہے یہ خود اس انسان سمیت کوئی بھی نہیں جانتا۔مگر ساتھ ہی ہم زندگی بھر یہ اندازہ بھی نہیں لگا پاتے کہ ہمارے حصے میں آئی سانسوں اور وقت میں سے کتنے فیصد پر ہمارا حق ہے۔اور ہم اپنے حصے کا سارا وقت اور تمام سانسیں اوروں کی مرضی کے مطابق جینے کی غلطی کرتے ہوئے گزارتے ہیں اور یوں زندگی بھر زندگی جینے کی اصل لذت سے محروم رہتے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں سے خود کو دیکھنے کے بجائے اپنی جانب دیکھتی دوسری آنکھوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ہمارے کان ہماری آنکھ بن جانتے ہیں جن سے ہم دوسروں کی اپنے بارے میں رائے اور تبصروں کی عینک سے اپنی شخصیت کو دیکھتے ہیں اپنے شخصیت کو اوروں کے تجزیے کے ترازو میں تولتے ہیں۔اس لئے ہمیشہ غیر مطمئین رہتے ہیں۔ہم اپنے سوا سب کو جانتے ہیں۔ہماری اپنے آپ سے کبھی دوستی نہیں ہو پاتی۔ہم اپنے بارے میں خود کوئی رائے ہی نہیں رکھتے۔ لباس ہی کا معاملہ لے لیجیے۔ ہم ہمیشہ وہ لباس پہننا پسند کرتے ہیں جسےپہن کر ہم دوسروں کو اچھے لگیں۔اپنے بالوں کے لئے وہ ہئے اسٹائل چنتے ہیں۔جو ہمارے ارد گرد لوگوں میں مقبول ہوتا ہے۔ہم اپن