نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

مضبوط تعلقات-لمبی اور صحت مند زندگی




 ذرا سوچیے کہ کیا ہو اگر ہم لوگوں کا مطالعہ و مشاہدہ ان کی نوعمری سے ان کی ضعیفی یعنی 65, 75 یا 85 سال کی عمر تک کریں؟ فی الحقیقت اگر ایسا ممکن ہو تو ہم کیا کیا نتائج اخذ نہ کرسکیں گے.جی ہاں, امریکہ میں 724 افراد پر ایک ایسی ہی   study تحقیق کی گئی جو 75 سالوں میں مکمل ہوئی. ان پر ان کی نوعمری سے مطالعہ کا آغاز کیا گیا. ان 724 میں سے کم و بیش 60 افراد اب بھی زندہ ہیں اور برضا و رغبت ابتک خود کو اس تحقیق کا حصہ بنائے ہوئے ہیں.ان میں سے زیادہ تر عمر کی نویں دہائی میں داخل ہوچکے ہیں. ان سب پر اسوقت تحقیق کا آغاز کیا گیا تھا جب یہ سب ٹین ایجر تھے.ان کے انٹرویوز لیے گئے. طبی معائنے بھی کیے گئے. ان کے گھر جاکر والدین سے ملاقاتیں بھی کی گئیں اور ان کے بھی انٹرویوز ریکارڈ کیے گئے. یہ نوعمر پھر سن بلوغت کو پہنچے.زندگی کے سبھی شعبوں انہوں نے مختلف کیرئرز کا انتخاب کیا. ان میں سے کچھ فیکٹری ورکرز بنے.کچھ نے مزدوری کی. کچھ لوگ ڈاکٹر بنے اور کچھ نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا. ایک صاحب امریکی صدر بھی منتخب ہوئے. کوئی ایک دہائی قبل ان کی بیویوں سے جب اس تحقیق کا حصہ بننے کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو سبھی نے بلاہچکچاہٹ کہا "بالکل. یہی تو وقت ہے"- 75 سال کی اس ساری محنت, تحقیق اور مطالعہ کا نچوڑ ایک مختصر جملہ میں اسطرح بیان کیا جاسکتا ہے

درحقیقت اپنے اردگرد لوگوں سے مضبوط تعلق ہی ہماری زندگی میں سچی خوشی, اطمینان اور صحت کی ضمانت ہیں-

اس تحقیق سے تعلقات کے حوالے سے تین سبق سیکھنے کو ملے.

 اپنے اردگرد لوگوں سے میل جول اور سماجی تعلقات ہمارے لیے انتہائی مفید اور تنہائی ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کیلئے زہر قاتل ہے

مطلب بہت سادہ اور آسان ہے.جو لوگ اپنے اردگرد جتنا زیادہ اپنے والدین, بھائی بہن, شریک حیات, بچوں, رشتہ داروں, ہمسایوں, دوستوں, ساتھ کام کرنیوالوں اور مجموعی طور پر معاشرے کیساتھ اپنا تعلق جتنا زیادہ مضبوط رکھتے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ خوش اور مطمین ہوتے ہیں, بہتر ذہنی و جسمانی صحت کے حامل ہوتے ہیں اور لمبی عمر پاتے ہیں. ان کے برعکس اوروں سے سماجی فاصلہ رکھنے والوں سے سچی خوشی اور اطمینان بھی دور ہوجاتے ہیں نتیجہ میں نفسیاتی اور جسمانی صحت کے مسائل سے دوچار رہتے ہیں اور بالآخر دنیا سے بھی جلد رخصت ہوجاتے ہیں

 مقام افسوس یہ ہے کہ ہر 5 میں سے کم از کم ایک فرد خود کو ہر دور میں احساس تنہائی کا شکار بتلاتا ہے. یہ شادی شدہ, صاحب اولاد اور ہجوم میں ہوکر بھی تنہا ہی رہتے ہیں

 سیکھنے کا دوسرا سبق یہ ہےکہ انسانی تعلقات میں اصل اہمیت دوستوں کی تعداد اور شادی شدہ یا صاحب اولاد ہونا نہیں بلکہ "تعلق" کا "معیاری" ہونا ہوا کرتی ہے. یہ بھی ثابت ہوا کہ جھگڑوں اور تنازعات سے بھرے تعلقات کے درمیان جینا انسانی صحت کیلیے انتہائی مہلک ہوتا ہے . ایسا تعلق طلاق سے کہیں زیادہ برے اثرات مرتب کرتا ہے جب کہ خوشگوار اور پرجوش تعلقات بھری زندگی گویا انسانی صحت کے لیے محافظ کا کردار ادا کرتی ہے.

 سیکھنے کا تیسرا سبق اس تحقیق سے یہ ملتا ہے کہ مضبوط اور خوشگوار سماجی تعلقات کے اثرات صرف جسم نہیں بلکہ انسانی ذہن پر بھی بہت شاندار ہوا کرتے ہیں۔ 

اپنے اردگرد اور خود سے جڑے افراد سے گرم جوش تعلق جوڑے رکھنے والوں کی یادداشت عمر کے آخری حصہ میں بہت تیز ہوتی ہے. ایسے افراد, جو اپنے متعلقین کے بارے میں اس حوالے سے پراعتماد ہوتے ہیں کہ بوقت ضرورت وہ ان پر بلا تردد انحصار کرسکتے ہیں, نہ صرف طویل عمر پاتے ہیں بلکہ آخری عمر میں بھی بہت شاندار حافظہ کے مالک نظر آتے ہیں.

اب اگر ہم اپنا محاسبہ کریں اور خود سے یہ سوال دریافت کریں کہ اپنی موجودہ 25, 40, 65 یا 75 سال کی عمر میں اوروں سے تعلق بنانا, اسے مضبوط کرنا اور برقرار رکھنا خود ہمارے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ اس حوالے سے کیسے ہم کوئی مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں؟ اگر سوچا جائے تو ایسا ہم موبائل, لیپ ٹاپ اور TV اور LCD کو دیے جانیوالے وقت (Screen time) کو لوگوں کو دئیے وقت (People Time)  سے تبدیل کرکے باآسانی کرسکتے ہیں. زندگی کے معمولات (Routine) کو تھوڑا سا بدل کر, کچھ نیا کرکے ہم آسانی سے بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں. کچھ فاصلہ ساتھ چہل قدمی کرکے, کسی لائبریری میں کوئی اچھی کتاب ساتھ پڑھ کر,  شام کسی پارک میں کسی بینچ پر ساتھ بیٹھ کر, ریستوران میں محض چائے یا کافی کے ایک کپ سے لطف اندوز ہو کر یا کسی ایسے رشتہ دار, ساتھی یا پرانے دوست سے ملنے جاکر جس سے ہم برسوں پہلے بات کرنا بھی ترک کرچکے ہوں. ہمارا ایسا کرنا اوروں کی ہی نہیں خود ہماری زندگی کو بھی بدل کر رکھ دے گا کیوں کہ اوروں سے اچھے اور مضبوط تعلقات درحقیقت ہماری اچھی زندگی کی تعمیر کرتے ہیں.

تحریر: شاہد جبیب ایڈوکیٹ 03332472648

تبصرے

  1. درست فرمایا اچھے اور مضبوط تعلقات صحت مند اور مطمئن زندگی کی ضمانت ہیں۔بہت اچھے عنوان کا انتخاب کیا آج کے دور کی ضرورت۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ کی تحریر خوشحال زندگی گزارنے کے بہترین رہنما اصول ہیں

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Sharing of any types of Links and sectarian , communal, blasphemous, hateful comments is strictly prohibited.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں

کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی

 کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں  بہت باکمال  تھے ہم  بھی ہماری  کھوج  میں رہتی تھیں تتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کے سن و سال تھے  ہم بھی زندگی کی گود میں سر رکھ کے سو گئے آخر  تمھارے عشق میں کتنے نڈھال تھے ہم بھی ضرورتوں   نے  ہمارا   ضمیر    چاٹ     لیا وگرنہ   قائل   رزق   حلال  تھے  ہم  بھی ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی پروین شاکر          हिंदी अनुवाद किसी का प्यार, किसी का विचार, हम भी अतीत में, हम भी बहुत समृद्ध थे तितलियाँ अक्सर हमारी तलाश में रहती थीं कि हम अपने शहर के वर्ष थे मैं अपनी गोद में सिर रखकर सो गया हम आपके प्यार में कितने कमजोर थे जरूरतें हमारे विवेक को चाट गई अन्यथा, जीविका के लिए आश्वस्त करना हमारे लिए भी उचित था हम एक ही धुन में चिंतन करते रहे कि हम जीवन में कभी भी अमर थे परवीन शा कि र

اساتذہ نشانے پر کیوں؟؟؟؟DISCRIMINATORY PROTOCOL

 عزت ماب جناب عمران احمد خان نیازی صاحب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان. . عزت ماب جناب عثمان بوزدار صاحب وزیراعلی پنجاب. السلام و علیکم, کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی ایک خاتون افسر جن کا نام اب راقم کی یاد داشت میں نہیں اور پشاورشہر کی سارہ تواب نامی خاتون ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی اپنے شیرخوار و نونہال بچوں کو گود میں بٹھا کر اپنے دفاتر میں محکمانہ اور پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جنہیں عوامی سطح پر بہت سراہا گیا. متعلقہ محکموں اور حکومتوں کی جانب سے بھی ان تصاویر پر کسی منفی ردعمل کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا جس سے اندازہ ہوا کہ سرکار کو ملازمت پیشہ ماؤں اور ان کے بچوں کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔. اب آئیے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب.  آج سوشل میڈیا پر ضلع میانوالی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری اہجوکیشن کے دفتر سے مورخہ 26/9/2020 کو جاری ہونے والا ایک حکم نامہ معطلی کا عکس بھی وائرل ہوا جس پر مجاز افسر مسمی محمد خلیل پراچہ صاحب کے دستخط بحروف انگریزی بھی ثبت ہیں جس میں عشرت ستار نامی ایک خاتون ٹیچر کو معطل کرتے ہوئے متعلقہ