ماہ اگست میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل
کو تسلیم کئے جانے کا اعلان اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کے معاہدے پر دستخط نے مشرق وسطی کی لمحہ لمحہ تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کو بظاہر ایک نیا موڑ دیا یے مگر خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کےلئے یہ کوئی اتنا غیر متوقع فیصلہ بھی نہیں جیسا کہ اس پر چند ممالک کیجانب سے آنیوالے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے. فلسطینی اتھارٹی کے صدر کی جانب سے امارات سے اپنے سفیر کی واپسی اور چند اور ممالک کی جانب سے لفاظی کی حد تک مذمت جیسے اقدامات بھی محض رسمی کاروائی ہیں ۔ایک جانب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان کا یہ کہنا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا انکا فیصلہ غرب اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری اور فلسطینی زمین کے انضمام کا اسرائیلی عمل روکنے سے مشروط ہے تو دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاھو کا واضح اعلان کہ "آباد کاری اور انضمام کا عمل محض موخر ہوا ہے اور کسی صورت ان علاقوں سے دستبردار نہیں ہوں گے" اصل صورتحال کو واضح کرتا ہے۔
سعودی ردعمل میں بظاہر مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے مگر دوسری طرف صدر ٹرمپ نے واضح فیصلہ سنایا کہ "سعودی عرب کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا ہوگا ".واضح رہے کہ صدر ٹرمپ ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ "دو ریاستی حل"اسرائیل فلسطین تنازع کا واحد حل ہیں یعنی فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے بغیر بھی کوئی حل فلسطینیوں پر مسلط کیا جا سکتا ہے۔
اس ممکنہ حل کے کوئی خدوخال تو ابتک وہ منظرعام پر نہیں لائے مگر اس سے پہلے فلسطینی مہاجرین (جو تقریباً 40 سے 50 لاکھ کی تعداد میں زیادہ تر ان عرب ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں جن کی اسرائیل کے ساتھ کوئی سرحد نہیں) کی اپنےآبائی علاقوں میں واپسی کا بین الاقوامی حق "right to return " سے تقریباً انکار کرتے ہوئے ان کی حیثیت کو اس وقت متنازع بنانے کی کوشش کی جب گزشتہ سال انہوں نے ایک بیان میں مختلف عرب ممالک سے شہریت اور پاسپورٹ لینے والے فلسطینیوں کو مہاجرین ماننے سے انکار کرتے ہوئے مہاجرین کی تعداد کو صرف 5 لاکھ قرار دیا۔گویا ان کے نزدیک 40-35 لاکھ فلسطینی مہاجرین اب فلسطینی ہی نہیں رہے۔لہذا اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کا حق کھوچکے.
صدر ٹرمپ کیطرف سے آنیوالے دیگر اقدامات میں 52 سال بعد 1967 کی جنگ میں اسرائیل کیجانب سے قبضہ کیے گئے علاقوں کے بارے میں اسرائیل کی حق میں کئے گئے ان کے مزید جارحانہ اور متنازع فیصلوں کا اعلان اور ان پر عمل دیکھنے میں آیا جب پہلے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی اور پھر اس کے بعد شام کی جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ کو تسلیم کرکے "اسرائیل اور خطہ کے استحکام" کے مفاد میں اسے "اسرائیل کا حصہ" مان لینے جیسے اعلانات کی صورت میں سامنے آئے گو کہ اقوام متحدہ کیجانب سے اس پر ماضی کی روایات کیمطابق ایک بودے سے بیان کی صورت میں ہی دیا گیا کہ امریکی اعلان سے اقوام متحدہ کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑا.دوسری جانب مختلف اسرائیلی حلقوں کیجانب سے سعودی عرب اسرائیل کے مابین مضبوط ہوتے خوشگوار روابط کا برملا اظہار کیا جاتا رہا ہے. امریکہ اور اسرائیل کیجانب سے کسی بھی مرحلہ پر فلسطینیوں کو شامل کیے بغیر یکطرفہ طور پر Deal of the Centuary جیسے منصوبوں کے لئے موجودی سعودی قیادت کیجانب سے اس منصوبہ کی کامیابی کیلیے اسرائیل کی حمایت میں کئے گئے اقدامات اور درکار فنڈز کی فراہمی کیلیے کوششیں بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں. سعودی ولی عہد کیجانب سے فلسطینیوں کو بیت المقدس سے مکمل دستبرداری اور متبادل کے طور پر ابوعدیس کو فلسطینی اتھارٹی کے مستقبل کے ممکنہ دارالحکومت کے طور پرقبول کرنے کیلئے کئے گئے ان کے جتن مستقبل قریب کے مشرق وسطی کا سیاسی نقشہ سب کے سامنے پیش کر رہے ہیں. ماضی قریب میں اومان کے سلطان اور اسرائیلی وزریراعظم نیتن یاہو بھی ملاقات کرکے خوشگوار روابط استوار کرنیکی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں. سعودی حکومت کیجانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کا اعلان کسی بھی وقت آسکتا ہے جبکہ مزید چند عرب ریاستوں کے بارے میں اسطرح کے اقدامات کی پیشنگوئیاں کیجارہی ہیں اسرائیل کیساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے ممالک میں سے مصر اور اردن عرصہ ہوا اسرائیل کو تسلیم کرچکے. سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین روابط استوار ہوچکے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنیکے سعودی اعلان کی رسمی کاروائی کسی بھی وقت متوقع ہے. شام بھی بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوکر اسرائیل کے لیئے کسی طرح کا خطرہ نہیں رہا. صدام کے بعد کا عراق اب اسرائیل کے لیے کوئی مشکل پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں رہا. سیاسی عدم استحکام کا شکار لبنان اسرائیل کے لیے کبھی خطرہ تھا اور نہ آج ہے. بہار عرب کے بعد ایرانی حمایت یافتہ باغیوں نے شام,یمن اور بحرین کو جس خانہ جنگی سے دوچار کیا جس کے سبب عرب ریاستوں کے مطلق العنان حکمران شدید خوف کا شکار نظر آتے ہیں اور اپنا اقتدار بچانے کے کیے امریکی حمایت کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں امریکی صدر کو اسرائیل کی جارحانہ حمایت کا وہ موقعہ فراہم کردیا ہے جس کی اسرائیل کی 72 سال کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی.اب فلسطینیوں کے بنیادی حقوق پر کوئی بات ہورہی ہے نہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور بیت المقدس کی آزادی کی کوئی فکر باقی رہی ہے.اب ماضی کیطرح امریکہ بہادر پڑوسی ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنیکا مشورہ نہیں بلکہ واضح 'حکم' دے رہا ہے. اسرائیل جو اہنے قیام سے ہی تمام بین الاقوانی قوانین اور معاہدوں سے "آزاد" تھا ہی اب کھل کر اس کا اعلان بھی کرنے لگا ہے
شاہد حبیب ایڈوکیٹ
03332472648
عمدہ تحریر
جواب دیںحذف کریںتشکر
حذف کریںبہت ھی اچھی اور دلائل سے بھرپور تحریر ھے
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ
حذف کریں