نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک...

فلسطین اور اسرائیل

  


ماہ اگست میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل
کو تسلیم کئے جانے کا اعلان اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کے معاہدے پر دستخط نے مشرق وسطی کی لمحہ لمحہ تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کو بظاہر ایک نیا موڑ دیا یے مگر خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کےلئے یہ کوئی اتنا غیر متوقع فیصلہ بھی نہیں جیسا کہ اس پر چند ممالک کیجانب سے آنیوالے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے. فلسطینی اتھارٹی کے صدر کی جانب سے امارات سے اپنے سفیر کی واپسی اور چند اور ممالک کی جانب سے لفاظی کی حد تک مذمت جیسے اقدامات بھی محض رسمی کاروائی ہیں ۔ایک جانب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان کا یہ کہنا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا انکا فیصلہ غرب اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری اور فلسطینی زمین کے انضمام کا اسرائیلی عمل روکنے سے مشروط ہے تو دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاھو کا واضح اعلان کہ "آباد کاری اور انضمام کا عمل محض موخر ہوا ہے اور کسی صورت ان علاقوں سے دستبردار نہیں ہوں گے" اصل صورتحال کو واضح کرتا ہے۔
سعودی ردعمل میں بظاہر مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے مگر دوسری طرف صدر ٹرمپ نے واضح فیصلہ سنایا  کہ "سعودی عرب کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا ہوگا ".واضح رہے کہ صدر ٹرمپ ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ "دو ریاستی حل"اسرائیل فلسطین  تنازع کا واحد حل ہیں یعنی فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے بغیر بھی کوئی حل فلسطینیوں پر مسلط کیا جا سکتا ہے۔
اس ممکنہ حل کے کوئی خدوخال تو ابتک وہ منظرعام پر نہیں لائے مگر اس سے پہلے فلسطینی مہاجرین (جو تقریباً 40 سے 50 لاکھ کی تعداد میں زیادہ تر ان عرب ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں جن کی اسرائیل کے ساتھ کوئی سرحد نہیں) کی اپنےآبائی علاقوں میں واپسی کا بین الاقوامی حق "right to return " سے تقریباً انکار کرتے ہوئے ان کی حیثیت کو اس وقت متنازع بنانے کی کوشش کی جب گزشتہ سال  انہوں نے ایک  بیان میں مختلف عرب ممالک سے شہریت اور پاسپورٹ لینے والے فلسطینیوں کو مہاجرین ماننے سے انکار کرتے ہوئے مہاجرین کی تعداد کو صرف 5 لاکھ قرار دیا۔گویا ان کے نزدیک  40-35 لاکھ فلسطینی مہاجرین اب فلسطینی ہی نہیں رہے۔لہذا  اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کا حق کھوچکے.
صدر ٹرمپ کیطرف سے آنیوالے دیگر اقدامات میں 52 سال بعد 1967 کی جنگ میں اسرائیل کیجانب سے قبضہ کیے گئے علاقوں کے بارے میں اسرائیل کی حق میں کئے گئے ان کے مزید جارحانہ اور متنازع فیصلوں کا اعلان اور ان پر عمل دیکھنے میں آیا جب پہلے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی اور پھر اس کے بعد  شام کی جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ کو تسلیم کرکے "اسرائیل اور خطہ کے استحکام" کے مفاد میں اسے "اسرائیل کا حصہ" مان لینے جیسے اعلانات کی صورت میں سامنے آئے گو کہ اقوام متحدہ کیجانب سے اس پر ماضی کی روایات کیمطابق ایک بودے سے بیان کی صورت میں ہی دیا گیا کہ امریکی اعلان سے اقوام متحدہ کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑا.دوسری جانب مختلف اسرائیلی حلقوں کیجانب سے سعودی عرب اسرائیل کے مابین مضبوط ہوتے خوشگوار روابط کا برملا اظہار کیا جاتا رہا ہے. امریکہ اور اسرائیل کیجانب سے کسی بھی مرحلہ پر فلسطینیوں کو شامل کیے بغیر یکطرفہ طور پر Deal of the Centuary جیسے منصوبوں کے لئے موجودی سعودی قیادت کیجانب سے اس منصوبہ کی کامیابی کیلیے اسرائیل کی حمایت میں کئے گئے اقدامات اور درکار فنڈز کی فراہمی کیلیے کوششیں بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں. سعودی ولی عہد کیجانب سے فلسطینیوں کو بیت المقدس سے مکمل دستبرداری اور متبادل کے طور پر ابوعدیس کو فلسطینی اتھارٹی کے مستقبل کے ممکنہ دارالحکومت کے طور پرقبول کرنے کیلئے کئے گئے ان کے جتن مستقبل قریب کے مشرق وسطی کا سیاسی نقشہ سب کے سامنے پیش کر رہے ہیں. ماضی قریب میں اومان کے سلطان اور اسرائیلی وزریراعظم نیتن یاہو بھی ملاقات کرکے خوشگوار روابط استوار کرنیکی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں. سعودی حکومت کیجانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کا اعلان کسی بھی وقت آسکتا ہے جبکہ مزید چند عرب ریاستوں کے بارے میں اسطرح کے اقدامات کی پیشنگوئیاں کیجارہی ہیں اسرائیل کیساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے ممالک میں سے مصر اور اردن عرصہ ہوا اسرائیل کو تسلیم کرچکے. سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین روابط استوار ہوچکے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنیکے سعودی اعلان کی رسمی کاروائی کسی بھی وقت متوقع ہے. شام بھی بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوکر اسرائیل کے لیئے کسی طرح کا خطرہ نہیں رہا. صدام کے بعد کا عراق اب اسرائیل کے لیے کوئی مشکل پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں رہا. سیاسی عدم استحکام کا شکار لبنان اسرائیل کے لیے کبھی خطرہ تھا اور نہ آج ہے. بہار عرب کے بعد ایرانی حمایت یافتہ باغیوں نے شام,یمن اور بحرین کو جس خانہ جنگی سے دوچار کیا جس کے سبب عرب ریاستوں کے مطلق العنان حکمران شدید خوف کا شکار نظر آتے ہیں اور اپنا اقتدار بچانے کے کیے امریکی حمایت کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں امریکی صدر کو اسرائیل کی جارحانہ حمایت کا وہ موقعہ فراہم کردیا ہے جس کی اسرائیل کی 72 سال کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی.اب فلسطینیوں کے بنیادی حقوق پر کوئی بات ہورہی ہے نہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور بیت المقدس کی آزادی کی کوئی فکر باقی رہی ہے.اب ماضی کیطرح امریکہ بہادر پڑوسی ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنیکا مشورہ نہیں بلکہ واضح 'حکم' دے رہا ہے. اسرائیل جو اہنے قیام سے ہی تمام بین الاقوانی قوانین اور معاہدوں سے "آزاد" تھا ہی اب کھل کر اس کا اعلان بھی کرنے لگا ہے

شاہد حبیب ایڈوکیٹ

03332472648

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

Sharing of any types of Links and sectarian , communal, blasphemous, hateful comments is strictly prohibited.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں ...

یقین کی طاقت

حضرت واصف علی واصف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بڑی منزل کا مسافر کبھی چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا۔انسان کے قد  کے قد کا پتا اس کےجھگڑوں سے چلتا ہے۔     بقول اشفاق احمد صاحب جنہیں منزل کو پانا ہوتا ہے۔وہ کتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔اللہ کی رحمت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کو بڑا سوچنا چاہیئے۔یہ بڑا جرم ہے کہ انسان اپنی سوچ کو محدود کر لے۔دینے والی ذات اتنی بڑی اور لا محدود ہے تو اس سے توقعات کیوں نہ بڑی باندھی جائیں۔جب تک آپ کا خواب بڑا نہیں ہو گا آپ کی سوچ اور آپ کا فلسفہ بھی بڑا نہیں ہوسکتا۔اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں اور توانائیوں کو  چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی نذر  ہر گزنہ کریں۔                          آپ دوسروں کی پرواہ کریں گے تو دوسرے بھی آپ کی پرواہ کریں گے۔آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو آپ کو بھی عزت ملے گی۔آپ بانٹنا شروع کریں گے تو آپ کو ملنا شروع ہو جائے گا۔اور حتمی طور پر آپ کامیاب ہوں گے۔ بروس لپٹن کے بقول جب تم یقین کر لیتے ہو تو تمھارا ذہن رستہ بھی تلاش کر لیتا ہے۔جب آپ بڑا خواب دیکھتے ہیں پھر ...

دو باکمال شاعر، دو خوب صورت خیال

کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا تو بڑے پیار سے بڑے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو اور بے تابی سے فرقت کے خزاں لمحوں میں تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا جب کبھی موڈ میں ا کر مجھے چوما کرتی تری ہونٹوں کی حدت سے میں دھک سا جاتا رات کو جب بھی تو نیندوں سے سفر پر جاتی مرمریں ہاتھ کا اک تکیہ سابنایا کرتی میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا تیری زلفوں کو ،ترے گال کو چوما کرتا جب بھی تو بند قبا کھولنے لگتی جاناں اپنی آنکھوں کو ترے حسن سے خیرا کرتا مجھ کو بےتاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا شاعر: سید وصی شاھ کاش میں ترے بن گوش کا بندا ہوتا کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں صبح کوگرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول میرے کھو جانے پرہوتا ترا دل کتنا ملول تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ...