نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

یہ پاکستان ہے فرانس نہیں



     Sorry Mam,Motor way is not in France



 دنیا کے مختلف براعظموں اور ملکوں میں پھیلے وہ
 لاکھوں افراد جنہیں عرف عام میں اورسیز پاکستانی یا سمندر پار پاکستانی کہا جاتا ہے میری نظر میں بڑی عجیب و غریب مخلوق ہیں. یہ لوگ اپنی تعلیم ہنر اور قابلیت کی بنیاد پر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنا گھر محلہ گاؤں شہر اور ملک چھوڑ کر پردیس جاتے ہیں ان کی جدائی کادرد سہتے ہیں. اپنے رسوم و رواج ماحول معاشرت سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور بالکل مختلف رسوم و روایات زبان تہذیب اور بودوباش  کے درمیان بادل نخواستہ زندگیاں گذارتے ہیں. ذرا سوچئے کیا اتنی بڑی قربانی کیا صرف پیسہ کمانے کے لیے دی جا رہی ہوتی ہے؟ اتنی بڑی قیمت کیا صرف معاشی منفعت کے حصول کے لیے ادا کی جارہی ہوتی ہے؟ کیا ان کا اپنا وہ ملک جہاں بیرون ملک سے لوگ پیسہ کمانے آتے ہیں معاشی اعتبار سے اتنا بانجھ ہوسکتا ہے کہ خود اپنے شہریوں کو خاطرخواہ روزگار نہ مہیاء کرسکے.پاکستان میں  جہاں سعودی, چینی, ترک اور ملائشین بلینز میں سرمایہ کاری کر رہے ہوں اور افغان ایرانی بنگلہ دیشی شہری کامیابی سے کاروبار اور ملازمت کرتے ہوں وہ پاکستان اپنے شہریوں کو روزگار نہ دے سکے. راقم خود ایسے اٹالین چائنیز اور سری لنکن شہریوں سے واقف ہے جو کراچی میں ٹیکسٹائل, گارمینٹس اور دیگر شعبوں میں کامیابی سے برس ہا برس سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا کہ ان حالات میں ایسے ملک کے اپنے شہریوں کا بیرون ملک منتقل ہونا کیا صرف پیسہ کمانے کے لیے ہوسکتا ہے؟
پاکستان سے یورپ, آسٹریلیا, مشرق بعید, شمالی اور جنوبی امریکہ اور یہاں تک کہ افریقہ کے مختلف ممالک میں یہ سمندر پار پاکستانی وطن میں رہنے والوں سے کہیں بڑھ کر محب وطن ہوتے ہیں. یہ اپنے ملک کے کے لیے فارن ایکسچینج یعنی غیرملکی زرمبادلہ کی آمد کا سب سے بڑا ذریعہ بلکہ اگر سادہ ترین الفاظ میں اگر کہا جائے کہ اپنے گھر (یعنی وطن) کے سب سے بڑے کماؤ پوت ہوتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا.یہ یورپ اور امریکہ کی شہریت حاصل کےکر امریکی اور یورپی معاشروں کا حصہ بن کر وہاں کی سیاست میں پاکستان کی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔پاکستان کے لئیے لابنگ کرتے ہیں۔پاکستان مخالفت لابی کی یلغار کے آگے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔پاکستان ،پاکستانیت اور پاکستانیوں کا ایک صاف ستھرا امیج دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں انہیں پاکستان کی زبان ادب و ثقافت سے روشناس کرواتے ہیں
غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئیے راغب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں رابطہ کار اور سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں مگر بدلے میں اپنے ملک سے کیا صلہ پاتے ہیں؟؟
پاکستان میں ان کی غیر موجودگی میں ان کی جائیدادوں پر قبضے ہو جاتے ہیں.ان سے کثیر زرمبادلہ کمانے والی تمام حکومتیں انہیں انتخابات میں ووٹ کا حق اور پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے سے نا معلوم وجوہات کی بنیاد پر صرفِ نظر کرتی آئیں ہیں۔ان سمندر پار پاکستانیوں میں سے بہت سوں کی تو دیار غیر میں تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔پاکستانوں کی یہ قسم عجیب مخمصے کا شکار نظر آتی ہے سمندر پار ہو کر بھی یہ پاکستان میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔یہ اتنے محب وطن ہیں کہ اپنے وطن سے ترک وطن کرنے اور امریکی ۔برطانوی،فرانسیسی شہریت لینے کے باوجود اپنے نام کے ساتھ پاکستانی کا لاحقہ ضرور لگاتے ہیں ان میں سے بہت سے قانونی اور معاشی مجبوریوں کے سبب پاکستانی شہریت سے دستبردار بھی ہو چکے مگر ان میں سے کوئی بھی پاکستانی قومیت سے دستبردار ہونے کو  تیارنہیں اور دیار غیر میں پیدا ہو کر وہیں پروان چڑھنے والی اپنی دوسری اور تیسری نسل کو اپنی دینی اور قومی تشخص سے روشناس کروانےکے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ہر سال دو سال بعد یہ لوگ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر پاکستان آتے ہیں۔وطن پہنچ کر رشتہ داروں کی حریص نگاہوں اور چہروں سے ٹپکتی ان کی ذاتی اغراض کو برداشت کرتے یہاں کے موسم کے گرم و سرد میں کبھی بجلی تو کبھی گیس کی لوڈ شیدنگ جیسے مسائل سے ناآشنا بچوں کو بھی یہ سب صبر سے برداشت کرواتے ہیں تو کبھی بے ترتیب اور نظم و ضبط سے عاری ٹریفک بلکہ مجموعی طور پر غیر منظم معاشرت اور قدم قدم پر آڑے آنے والی رشوت اور کرپشن کی دیگر اقسام کی غیر اطمینان بخش وضاحتیں دے دے کر اپنے بچوں کو مطمئن کرنے کی ناکام کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مگر یہ سارے کڑوے گھونٹ اس لئے پئے جاتے ہیں کہ جس حد تک ممکن ہو اپنے بچوں میں اپنی دین اور اپنی ثقافت کی رمق کو زندہ رکھا جاسکے۔امریکہ ،۔مشرق بعید اور یورپ کے نظم و ضبط  کے پابند اور قانون پسند معاشروں میں جنم لینے والے ان کے بچوں کو پاکستان پہنچتے ہی ایئرپورٹ سے گھر تک "پاکستانی مسلمانوں" کا جو چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ اس سے قطعی مختلف ہوتا ہے جسے دکھانے ان کے بڑے انہیں سمجھا منا کر یہاں لے کر آتے ہیں۔
فرانس میں مقیم ایک پاکستانی خاتون بالکل اسی طرح کچھ دن پہلے اپنے تین بچوں کے ساتھ اس خیال اور سوچ لئیے پاکستان آئیں کہ فرانس کے غیر اسلامی اور مغربی معاشرے میں پروان چڑھتے بچوں کو اسلامی اور پاکستانی اقدار و روایات سے آشنائی ہو۔ یہ خاتون عرصہ دراز سے فرانس میں مقیم ہیں جہاں وہ تنہا اور بغیر کسی محرم کے ہائی ویز پر رات گئے محفوظ سفر کی عادی تھیں ۔فرانس کے غیر مسلم معاشرے میں قوانین کے سخت نفاذ کے سبب ان کے اندر اتنی خود اعتمادی پیدا ہوچکی تھی کہ جو ہم پاکستانیوں کی نذدیک حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں رائج 'جرم ہونے کے بعد مجرم کی تلاش' والی حکمت عملی کے برعکس مغربی ممالک میں ہر شخص وہاں رائج پرو ایکٹو یعنی 'جرم کو ہونے نہ دینے' کی حکمت عملی کے سبب  ذاتی تحفظ کے حوالے سے بے تحاشہ  بے خوف نظر آتا ہے۔تو ان معاشروں میں رہ کر یہ سمندر پار لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ جس ملک سے جا کر وہاں آباد ہوئے تھے وہ اب بھی پاکستان ہی ہے۔وہی پاکستان جسے وہ دس،پندرہ ،پچیس یا پچاس سال پہلے چھوڑ کر پردیس گئے تھے۔مگر اس بار کچھ ایسا مختلف ہوا ہے کہ  سات سمندر پار رہ کر خود کو پاکستانی قرار دینے والوں کی کم از کم یہ غلط فہمی تو دور ہوجانی چاہئے.
یہ خاتون بھی پاکستان کی سڑکوں پر اسی اعتماد اور احساس تحفظ میں مبتلا تھیں جو غیر فرانس کے غیراسلامی  معاشرے کے نظم و ضبط اور قانون پسندی کے سبب ان کے لاشعور میں رچ بس چکا تھا. نصف شب کے بعد یہ خاتون اپنے تین بچوں کے ہمراہ براستہ موٹر وے سفر کرنے کی 'غلطی' کر بیٹھیں. دوسری غلطی یہ کی کہ ہمراہ کوئی بالغ محرم مرد نہ تھا اور اس پر طرہ یہ کہ پیٹرول بھی چیک کرنا بھول گئیں.  پاکستان میں ایک عورت کو اس قدر فاش غلطیوں کی سزا قانون نافذ کرنے والے ایک بہت بڑے ادارے پولیس کے ایک بہت بڑے اور باختیار منصب سی سی پی او پرفائز افسر (جن کی تعیناتی پر معترض صوبہ کے آئی جی کو گئے روز ہی تبدیل کیا گیا تھا) کے بقول تو پھر ملنا ہی تھی. راستے میں پیٹرول ختم ہونے کے سبب کار بند ہوگئ. انہوں نے گھبرا کر مدد کے لیے گوجرانوالہ میں اپنے ایک عزیز کو کال کی جو پاکستانی شہری ہونے کے سبب ان کی طرح پراعتماد نہ تھا لہذا اس نےمرد ہونے کے باوجود اتنی رات گئے اکیلے سفر کرنے کے بجائے  اپنے ایک دوست کو ہمراہ لیا اور خاتون کو ریسکیو سے رابطہ کرنے کے لیے کہا مگر یہاں وہ بھی غلطی پر تھا یہ مغربی ریسکیوورکرز کی طرح اطلاع ملتے ہی خاتون تک پہنچنے والے نہیں ہیں. ادھر پاکستان کی پولیس اور ریسکیو کی مستعدی اور عوام دوستی کی روایات سے واقف دو افراد ان سے زیادہ مستعدی سے بند کار میں اس خاتون اور ان کے بچوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور پھر پاکستان اپنے اسلاف کی دینی اور قومی روایات سے آشنائی کے لیے پاکستان آنے والے بچوں کی آنکھوں کے سامنے دو پاکستانیوں نےان کی آنکھوں کے سامنے ان اقدار کا مظاہرہ کیا جنہیں کسی بھی طرح حیوانی بھی نہیں کہا جاسکتا. یہ وہ سبق ان بچوں کو پاکستان کے اسلامی معاشرے میں پڑھایا گیا جو شاید انہیں فرانس کے کفریہ کلچر میں بھی پڑھنے کو نہ ملتا. اب ان بچوں کو پاکستانی روایات کے حوالے سے مزید کسی سبق کی حاجت باقی رہی ہوگی.
اس سارے قصہ میں جب پولیس کے کردار وکاروائی کا وقت آیا تو اس کے مزکورہ بالا زمہ دار ترین افسر کا بڑا واضح اور دو ٹوک موقف سامنے آیا. موصوف نے بجا طور پر اس سانحہ میں خاتون کی تمام غلطیوں کی بھرپور نشاندہی کرکے سانحہ کی ذمہ داری ان دو انسان نما حیوانوں کے کاندھوں سے اتار دی. خاتون کی طرف سے برتی گئیں ساری بے احتیاطی تو درحقیقت کسی بھی مرد کو گویا اس کے ساتھ من چاہا سلوک کرنے کا حق عطا کرتی ہیں. انھوں نے ٹھیک ہی تو کہا کہ آپ فرانس سے آئی ہیں وہاں گورنمنٹ کی رٹ ہے رول آف لاء ہے اخلاقی قدار ہیں وہاں آپ یہ غلطیاں کرنا افورڈکرسکتی ہیں. انہوں نے بالکل درست وضاحت کی "یہ فرانس نہیں پاکستان ہے" تو یہاں آپ کن اخلاقی اقدار, رول آف لاء اور گورنمنٹ کی رٹ کے آسرے پر اسطرح موٹر وے پر نکل آئیں. اس واضح اعلان نے تو سمندر پار کے ساتھ ساتھ ملک میں رہنے والوں کی بھی طبیعت صاف کردی ہے. اب جو اخلاقی اقدار, رٹ آف گورنمنٹ اور رول آف لاء جیسے عوامل کے تحت اور تحفظ کے احساس کے ساتھ بلاخوف وخطر زندگی گزارنا چاہتے ہیں آدھی رات کے بعد موٹروے پر پیٹرول چیک کیے بغیر سفر کرنا چاہتے ہیں تو وہ سب فرانس کا رخ کریں کیوں کہ "یہ فرانس نہیں پاکستان  ہے۔
تحریر: شاہد حبیب ایڈوکیٹ
+923332472648

تبصرے

  1. بہت ہی شاندار جاندار اور زبردست تحریر
    تلخ حقائق پہ مبنی جامع تحریر

    جواب دیںحذف کریں

  2. !Buhat Khoob
    Iske ilawa CCPO ka yeh bayan ke is mulk mn qanon ki hukumrani nahi he darhaqeqat schayi par .mabni bayan he. Albata woh yeh btana chahre hn ke woh is mansab keliye unfit hn.

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت اچھی تحریر ہے ۔ یہ بھی واضح ہو کہ یہ سی سی پی او ماضی کا کرپٹ ترین افسر رہا ہے جو کورٹ کی فائلوں میں اب تک اشتہاری ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. Inteha f amy,mufasil,taklef de such per mubni therere hai bilkul shaid saab aap na hum samunder par pakistanio k dill ki sahi turjumai ki hai

    جواب دیںحذف کریں
  5. بہت عمدہ اور معاشرہ کی صہی عکاسی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  6. آپ کی تحریروں میں جداگانہ مزاج کا عنصر پایا جاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Sharing of any types of Links and sectarian , communal, blasphemous, hateful comments is strictly prohibited.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں

کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی

 کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں  بہت باکمال  تھے ہم  بھی ہماری  کھوج  میں رہتی تھیں تتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کے سن و سال تھے  ہم بھی زندگی کی گود میں سر رکھ کے سو گئے آخر  تمھارے عشق میں کتنے نڈھال تھے ہم بھی ضرورتوں   نے  ہمارا   ضمیر    چاٹ     لیا وگرنہ   قائل   رزق   حلال  تھے  ہم  بھی ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی پروین شاکر          हिंदी अनुवाद किसी का प्यार, किसी का विचार, हम भी अतीत में, हम भी बहुत समृद्ध थे तितलियाँ अक्सर हमारी तलाश में रहती थीं कि हम अपने शहर के वर्ष थे मैं अपनी गोद में सिर रखकर सो गया हम आपके प्यार में कितने कमजोर थे जरूरतें हमारे विवेक को चाट गई अन्यथा, जीविका के लिए आश्वस्त करना हमारे लिए भी उचित था हम एक ही धुन में चिंतन करते रहे कि हम जीवन में कभी भी अमर थे परवीन शा कि र

کامیابی کی پہیلی

Easy way To Success زمانہ طالب علمی میں کھبی اساتذہ تو کبھی ہم جماعت اکثر دلچسپ سوالات  اور پہیلیاں پوچھا کرتے تھے جن سے زندگی بھر کے لیے عقل و دانش سے بھرپور سبق ملتے تھے. اسکول کے زمانے میں اسی طرح کا ایک سوال ایک استاد نے ہم سے کیا تھا جب انہوں نے چاک سے بلیک بورڈ پر ایک لیکر کھینچی (تب وائٹ بورڈ اور مارکر کا رواج نہ تھا) اور پھر پوری کلاس کو چیلینج کیا کہ کون اس لکیر کو چھوئے یا مٹائے بغیر چھوٹا کر کے دکھا سکتا ہے؟ لکیر کو آگے یا پیچھے سے مٹائے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا مگر ٹیچر کی طرف سے تو اسے چھونے کی بھی اجازت نہ تھی.ہم سب شش و پنج میں پڑے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے  رہے مگر کسی کے پاس اس معمہ کی سلجھن نہ تھی لہزہ تھوڑی دیر بعد ہی ہار مان گئے. تب ہمارے لائق استاد نے بلیک بورڈ پر اپنی کھینچی ہوئی لکیر سے ذرا نیچے ایک دوسری لکیر کھینچی جو پہلی لکیر سے کافی زیادہ لمبی تھی اور پھر پوری کلاس کو دیکھتے ہوئے  سوالیہ انداز میں جواب دیا "اب ہوگئ پہلی لکیر چھوٹی؟" تمام طالب علموں نے حیرت سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا. اس سوال اور اس کے جواب میں ہم سب کی زندگیوں کو بدل دینے