نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

دسمبر, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

صنفِ نازک کا استحصال۔

            تحریر :  جمیل شبیر      2010 جنسی ہراسانی کے خلاف ہماری پارلیمنٹ نے قانون منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت لازم کیا گیا تھا کہ اس کی دفعات ہر اُس کام کی جگہوں پر آویزاں کی جائیں جہاں خواتین کام کرتی ہیں، اور اس کے علاوہ جہاں جہاں یہ دفعات آویزاں کی جائیں وہاں وہاں تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے۔ اور اگر کوئی شکایت آئے تو دس دن کے اندر اندر اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ اور یہ قانون تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور کام کی جگہوں پر لاگو ہوگا۔         آج اس قانون کو منظور ہوئے دس برس ہونے کو آئے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی کام کی جگہوں پر خواتین اور بچیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتاہے۔ پچھلے چند دنوں میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں خواتین کو ہراساں کیا گیا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کی طالبات کی طرف سے احتجاج کیا گیا جس میں پشاور یونیورسٹی کے تمام طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ طالبات کی طرف سے یہ شکایت تھی کہ اگر انہیں اپنی تعلیم کے بارے میں کوئی کام پڑتا ہے یعنی اپنے مقالات (تھیسس) کے6 سلسلے میں یا امتحانی پرچوں کے بارے میں تو

قدرت کا گفٹ پیک

بلاشبہ قدرت بہت فیاض ہے اور اس فیاضی کا بھرپور مظاہرہ اس نے ہر انسان کو کسی نہ کسی ٹیلینٹ سے نواز کر کیا ہے مگر ہر ایک اس ٹیلنٹ کو استعمال نہیں کرتا. دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں. پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس کوئی ٹیلینٹ، ہنر یا صلاحیت ہو (جو سبھی کے پاس ہوتا ہے) لوگوں کی دوسری قسم میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر موجود ٹیلنٹ سے واقف ہوتے ہیں (ہم میں سے چند لوگ) تیسری قسم میں ان لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے جو اپنے ہنر، صلاحیت یا ٹییلینٹ کو استعمال بھی کرتے ہیں (یہ اہلیت بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے). طالب علمی کے زمانے میں ہر نوجوان یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اسے زندگی کی حرارت، جینے کی امنگ اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے.انہیں اپنی خاصیتوں کا بخوبی علم ہوتا ہے. وہ اپنے خوابوں پر یقین رکھتے ہیں مگر جب پیشہ منتخب کرنے کا مرحلہ سامنے آتا ہے تو وہ اپنی  صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر اپنی اسناد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں. تب ہم درحقیقت اپنی دلچسپی اور قدرت کی عطا کردہ تخصیص کو نظر انداز کرتے ہیں اور نتیجہ میں ہماری اپنی صلاحیتیں مٹنے لگتی ہیں.  اسٹیفن کنگ کے بقول "ٹیلنٹ کبھی بھی مست