نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک
حالیہ پوسٹس

امید کی طاقت

 چین میں پیدا ہونے والے "لی ہوا"  کو 18 سال کا ہونے پر ریڑھ کی ہڈی کا انتہائی خطرناک بگاڑ تشخیص ہوا جس کے سبب اس کا وجود بالکل درمیان سے چمٹے کی مانند مڑ گیا تھا۔ اس جیسی زندگی کا تصور کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن اسے 28 سال تک دنیا کو نیچے سے اوپر کی طرف یعنی الٹا دیکھتے ہوئے اسی طرح رہنا پڑا۔ اس کے جسم کے 3 حصے مربوط دکھائی دیتے تھے۔اس کا چہرہ اس کے پیر کے پنجوں کے مقابل نظر آتا تھا اور دونوں ہاتھ بالکل پیروں کے متوازی زمین کی طرف لٹکے رہتے تھے. "لی ہوا" نے زندگی کا بیشتر حصہ اسی جسمانی تکلیف میں گذارہ. وہ کمر کے بل لیٹ نہیں سکتا تھا. وہ ہمیشہ اسی ایک پوزیشن میں کھاتا، نہاتا اور سویا کرتا تھا مگر تصویر کا اس سے بھی بدترین دوسرا رخ یہ ہے کہ اس کی جسمانی حالت انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے کوئی ایک بھی ڈاکٹر اس کا علاج کرنے پر تیار نہ تھا۔ وہ سب ایک حقیقی خطرہ مول لینے سے خائف نظر آتے تھے کیوں کہ اس حالت میں کوئی بھی سرجری اس کو باآسانی موت کے منہ میں دھکیل سکتی تھی۔ "لی ہوا" کی والدہ نے بتایا کہ "میں اسے کئی جگہوں پر لے کر گئی لیکن کوئی بھی علاج کارگر ثابت

سب سے قیمتی اثاثہ

  وقت جب ایک بار گذر جائے تو پھرکبھی نہیں لوٹتا اس لئے ہمیں بلا کسی تاخیر وقت کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے ۔ یہ انتخاب بہرحال ہمیشہ ہمارے اپنے اختیار میں ہوتا کہ ہم اپنا وقت دانش مندی سے استعمال کریں یا پھر اسے ضائع کردیں۔ وقت اس دنیا میں ہر انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے لہزہ ہمیں ایک اجنبی کی طرح خود کو مخاطب کرکے اپنے آپ سے ہمیشہ  یہ سوال کرتے رہنا چاہئے کہ کیوں جناب کیا آپ اپنے وقت کی قدر کرتے ہیں؟ زندگی میں سبھی کے کچھ نہ کچھ خواب ہوتے ہیں اور خواب تعبیر کیے لئے وقت اور کوشش کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ابتداء میں ہم اپنے تئیں یہ فرض کر لیتے ہیں کہ چیزوں کو کرنے کے لئے ہمارے پاس کافی وقت ہے تو ذیادہ جلدی کی ضرورت نہیں مگر  بعد میں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم زرہ اور پہلے ایسا کرلیتے تو بہتر ہوسکتا تھا۔ نامعلوم کیوں اکثر لوگ کافی وقت گنوانے کے بعد وقت کی اہمیت کو سمجھ پاتے ہیں۔  وقت کی قدر کے بارے میں ایم اسکاٹ پیک نے کیا زبردست بات کہی کہ “جب تک آپ اپنی قدر نہیں کرتے ، آپ اپنے وقت کی قدر نہیں کریں گے۔ جب تک آپ اپنے وقت کی قدر نہیں کرتے ، آپ اس کے ساتھ کچھ نہیں کریں گے"۔ اور عہد حاضر کے چن

صنفِ نازک کا استحصال۔

            تحریر :  جمیل شبیر      2010 جنسی ہراسانی کے خلاف ہماری پارلیمنٹ نے قانون منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت لازم کیا گیا تھا کہ اس کی دفعات ہر اُس کام کی جگہوں پر آویزاں کی جائیں جہاں خواتین کام کرتی ہیں، اور اس کے علاوہ جہاں جہاں یہ دفعات آویزاں کی جائیں وہاں وہاں تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے۔ اور اگر کوئی شکایت آئے تو دس دن کے اندر اندر اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ اور یہ قانون تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور کام کی جگہوں پر لاگو ہوگا۔         آج اس قانون کو منظور ہوئے دس برس ہونے کو آئے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی کام کی جگہوں پر خواتین اور بچیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتاہے۔ پچھلے چند دنوں میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں خواتین کو ہراساں کیا گیا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کی طالبات کی طرف سے احتجاج کیا گیا جس میں پشاور یونیورسٹی کے تمام طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ طالبات کی طرف سے یہ شکایت تھی کہ اگر انہیں اپنی تعلیم کے بارے میں کوئی کام پڑتا ہے یعنی اپنے مقالات (تھیسس) کے6 سلسلے میں یا امتحانی پرچوں کے بارے میں تو

قدرت کا گفٹ پیک

بلاشبہ قدرت بہت فیاض ہے اور اس فیاضی کا بھرپور مظاہرہ اس نے ہر انسان کو کسی نہ کسی ٹیلینٹ سے نواز کر کیا ہے مگر ہر ایک اس ٹیلنٹ کو استعمال نہیں کرتا. دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں. پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس کوئی ٹیلینٹ، ہنر یا صلاحیت ہو (جو سبھی کے پاس ہوتا ہے) لوگوں کی دوسری قسم میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر موجود ٹیلنٹ سے واقف ہوتے ہیں (ہم میں سے چند لوگ) تیسری قسم میں ان لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے جو اپنے ہنر، صلاحیت یا ٹییلینٹ کو استعمال بھی کرتے ہیں (یہ اہلیت بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے). طالب علمی کے زمانے میں ہر نوجوان یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اسے زندگی کی حرارت، جینے کی امنگ اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے.انہیں اپنی خاصیتوں کا بخوبی علم ہوتا ہے. وہ اپنے خوابوں پر یقین رکھتے ہیں مگر جب پیشہ منتخب کرنے کا مرحلہ سامنے آتا ہے تو وہ اپنی  صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر اپنی اسناد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں. تب ہم درحقیقت اپنی دلچسپی اور قدرت کی عطا کردہ تخصیص کو نظر انداز کرتے ہیں اور نتیجہ میں ہماری اپنی صلاحیتیں مٹنے لگتی ہیں.  اسٹیفن کنگ کے بقول "ٹیلنٹ کبھی بھی مست

آغاز۔۔۔۔کامیابی کا پہلا زینہ

Let's Start you will be perfect.           جب ہمارے پاس خواب ہوں تو ہی ان کی تعبیر پانے کا جنون ہوتا ہے اور جب جذبہ ہو تو ہم اسے کمال کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ اکثر  جب ہمارے پاس کوئی بڑا مقصد ہو تو ہم اسے کسی دھماکے سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم راتوں رات آسمان پر چمکتا ستارہ بننا چاہتے ہیں۔ ہم جتنی جلدی ممکن ہو بہترین کے حصول کے خواہاں ہیں لیکن معاملات میں وقت لگتا ہے اور وقت کے ساتھ ہی معاملات بہتر ہوتے جاتے ہیں۔ کامیابی کا دروازہ کھولنے کی اصل کلید یہ ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سفر شروع کردیا جاۓ۔ عام طور پر ہوتا ہے یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک آئیڈیا ہے ، جو ہمارے خیال میں ہماری یا کسی کی زندگی کو فوری طور پر تبدیل کرسکتا ہے۔ لیکن ہم اس پر اس وقت تک کام شروع نہیں کرتے جب تک کہ (ہمارے خیال میں) حالات "سازگار" نہ ہوں۔ ہم بہتر وقت اور زیادہ وسائل کا انتظار کرتے ہیں۔ اور ایک دن کوئی اور اس خیال پر ایک پروڈکٹ تیار کرکے مارکیٹ میں لانچ کر دیتا ہے اور ہم افسوس  کرتے رہ جاتے ہیں۔ آپ میں سے اکثر  نے یہ بیان سنا ہوگا، "اوہ ، میرے ذہن میں بھی یہ آئیڈیا تھا لیکن میں شروع نہیں کر سکا۔&quo

مفت کی خوشیاں

. Happiness that cost Nothing یہ ایک سچی کہانی ہے۔ بارہ جنوری2007 کی صبح ایک شخص ایک وائلن ہاتھ میں تھامے نیویارک کے ایک میٹرو اسٹیشن پہنچا. ایک خالی بینچ  پر بیٹھ کر اس نے وائلن بجانا شروع کر دیا. وہ ایک جمعہ کی سرد اور معمول کے مطابق ہنگامہ خیز صبح تھی. ہزاروں لوگ اس وقت اس میٹرو اسٹیشن پر تیزی سے گذر رہے تھے. وہ شخص مسلسل ایک گھنٹہ ایک کے بعد ایک مختلف دھن بجاتا رہا. اس نے کل چھہ سات مختلف دھنیں بجائیں مگر گذرتے لوگوں میں سے کسی نے اس کا نوٹس تک نہیں لیا. لوگوں میں سے زہادہ تر کام پر جانے کی جلدی میں تھے. ایک بوڑھا شخص اس وائلن نواز کے پاس اس کا میوزک سننے کو رکا مگر پھر چند منٹ بعد ہی اس کی ایک دھن بھی پوری سنے بغیر آگے بڑھ گیا. کافی دیر وائلن بجانے کے بعد اسے پہلی ٹپ ملی. ٹپ دینے والی عورت اس کا میوزک سننے کے لیے رکے بغیر زمین پر رکھے اس کے ہیٹ میں پیسے ڈالتی ہوئی تیزی سے آگے بڑھ گئ. کچھ دیر بعد اپنی ماں کا ہاتھ تھامے گذرتا ہوا اہک تین سالہ بچہ اس کا سنگیت سننے کو رکا مگر اس کی ماں خاصی عجلت میں تھی اس نے اس طرح رک کر وقت ضایع کرنے پر بچے کو ٹوکا اور اسے دھکیلتی ہوئی دوبارہ چل پڑی