بقول اشفاق احمد صاحب جنہیں منزل کو پانا ہوتا ہے۔وہ کتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔اللہ کی رحمت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کو بڑا سوچنا چاہیئے۔یہ بڑا جرم ہے کہ انسان اپنی سوچ کو محدود کر لے۔دینے والی ذات اتنی بڑی اور لا محدود ہے تو اس سے توقعات کیوں نہ بڑی باندھی جائیں۔جب تک آپ کا خواب بڑا نہیں ہو گا آپ کی سوچ اور آپ کا فلسفہ بھی بڑا نہیں ہوسکتا۔اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں اور توانائیوں کو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی نذر ہر گزنہ کریں۔
آپ دوسروں کی پرواہ کریں گے تو دوسرے بھی آپ کی پرواہ کریں گے۔آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو آپ کو بھی عزت ملے گی۔آپ بانٹنا شروع کریں گے تو آپ کو ملنا شروع ہو جائے گا۔اور حتمی طور پر آپ کامیاب ہوں گے۔
بروس لپٹن کے بقول جب تم یقین کر لیتے ہو تو تمھارا ذہن رستہ بھی تلاش کر لیتا ہے۔جب آپ بڑا خواب دیکھتے ہیں پھر اسباب کو نہ دیکھیں کہ ایسا کرنا آپ کے اندر مایوسی کو جنم دے گا۔ جب آپ کے اندر منزل پر یقین ہو گا تو لاء آف اٹریکشن کے مطابق منزل کو بھی آپ کی طرف آناہوگا۔انسان کو فکری غربت سے بچنے کے قابل ہونا چاہیئے۔ذہنی طور پر بنجر ہونا بڑی خطرناک بات ہے۔
درحقیقت تخلیقی صلاحیتوں کا مطلب مسائل کا حل تلاش کرنے کی قابلیت ہے۔اور اس کے لیئے آئیڈیاز کا ہونا ضروری ہے۔آئیڈیاز ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں پھر مر جاتے ہیں انھیں زندہ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انہیں لکھ لیا جائے آئیڈیاز محفوظ رکھنے کے لیئے ذہانت اور انہیں پورا کرنے کے لیے یقین کی قوت درکارہوتی ہے۔
ڈیوڈ ۔جے شوارٹز کے بقول ہم ذہانت کے معاملے میں دو غلطیاں کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اپنی ذہانت کو حقیر سمجھتے ہیں۔دوسری یہ کہ دوسروں کی ذہانت کو اعلی تصور کرتے ہیں۔وہ مزید کہتا ہے کہ زبان سے ادا ہونے والا اور قلم سے لکھا جانے والا سب سے اداس جملہ یہ ہے کہ کاش میں ایسا کر لیتا۔ اور یہ اداس جملہ دو ہی اسباب سے ادا ہوتا ہےایک تو یہ کہ ہم اپنے آئیڈیاز کو یا تو زندہ نہیں رکھ پاتے یا بوقت ضرورت اپنی ذہانت کو حقیر سمجھتے ہیں۔
ہم سب کا ایک بڑا مسئلہ ترجیحات کا تعین ہوتا یے۔ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ یہ طے ہی نہیں کر پاتے کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ ہم اپنی زندگی کے حوالے سے ہمیشہ مغالطے کا شکار رہتے ہیں۔اور کل کے انتظار میں آج کو گنوا دیتے ہیں۔ہم میں سے کوئی یہ نہیں جانتا کہ اس کے پاس کتنا وقت ہے؟ اس دستیاب وقت کا درست کاموں میں اور بروقت استعمال ہی اصل کامیابی ہے۔ یاد رکھئیے امید آغاز ہے مگر امید کامیابی کے لیے ہر صورت عمل کی محتاج ہے۔اور عمل کی کامیابی یقین پر منحصر ہے۔ جو لوگ یقین رکھتے ہیں وہ پہاڑ جیسی رکاوٹوں کو اپنے راستے سے ہٹا سکتے ہیں۔
اپنے آپ پر یقین کریں کیوں کہ جب تک خود آپ اپنے آپ پر یقین نہیں کریں گے کوئی اور بھی آپ پر یقین نہیں کرے گا۔
ازشاہدحبیب ایڈوکیٹ
جی بالکل درست فرمایا آپ نے اسی یقين اور اعتماد کے ساتھ سفر کرتے ہوۓ اطمينان کی منزل اور مقام ٻر کھڑے ہیں
جواب دیںحذف کریںجی بالکل درست فرمایا آپ نے اسی یقين اور اعتماد کے ساتھ سفر کرتے ہوۓ اطمينان کی منزل اور مقام ٻر کھڑے ہیں
جواب دیںحذف کریںAmazing article. I believe exactly the same.
جواب دیںحذف کریںKehte hain ke agar aap ko apne khuwaabon se darr nahin lagta tou wo phir bohat chotay hain.
بہترین تحریر
جواب دیںحذف کریں