نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

تعریف کریں قابلِ تعریف بنیں

 

 اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ ہم بہت اچھے لوگ ہیں ،پیارے لوگ ہیں ۔اچھی خوش بختی کا سامان مہیا کرتےہیں ایک دوسرے کے لیے لیکن تعریف و توصیف کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ رواج ابھی بن نہیں سکا اور ہم نے اس کے بارے میں غور نہیں کیا کہ تعریف وتوصیف بھی واجب ہے۔کہیں واجب نہیں ہے تو بھی کی جانی چاہیئے تاکہ انسانوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی اور ایک یونیٹی پیدا ہو۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں آدمی کے چلے جانے کے بعد اس کی تعریف ہوتی ہے۔اگر آپ لاہور کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب میں جا کر دیکھیں تو بہت سے کتبے آپ کو ایسے نظر آئیں گے جن کے اوپر مرحوم کا نام، تاریخ پیدائش،  تاریخ وفات لکھی ہوگی۔پھر اس کے ساتھ ساتھ توصیفی کلمات بھی ہوں گے اب وہ بے چارہ باہر نکل کر تو نہیں دیکھ سکتا کی کتبے پر کیا لکھا ہے،یہ تو اس کے کام نہیں آیا۔بہتر یہ تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے اس کی کچھ تعریف و توصیف ہوجائےتو اس کو کچھ سہارا ہو اسکو پتا چلے کہ میرے اردگرد رہنے والے جو لوگ ہیں وہ بہت تقویت عطا کرنے والے لوگ ہیں۔

اپنے دور کے کامیاب ترین انسان ایمرسن کا قول ہے۔" جو شخص بھی مجھ سے ملتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح مجھ سے بہتر ہوتا ہے۔جب میں اس شخص کی بہتری اور عظمت پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں تو وہ شخص میرا دوست بن جاتاہے".اگر یہ طریقہ ایمرسن جیسے عظیم اور کامیاب انسان کے لئیے فائدہ مند تھا تو میرے اور آپ کے لیے کیوں نہ ہو گا؟
امریکی صدر ابراہیم لنکن نے ایک بار کسی کو اپنے خط کے آغاز میں لکھا "ہر انسان ستائش پسند ہوتا ہے۔"جان ڈیوی نے اہم بننے کی امنگ کو انسانی فطرت کی سب سے بڑی خواہش قرار دیا ہے۔انسانی خواہشات درحقیقت بہت محدود ہیں۔آپ اپنے لئے کل کائنات نہیں چاہتے اور انسانوں کی سبھی خواہشات عام طور پر پوری ہو جاتی ہیں۔مگر ایک خواہش جو نینداور خوراک جتنی ہی شدید ہوا کرتی ہے مگر اس کی تکمیل بمشکل ہو پاتی ہے۔اور یہ وہی خواہش ہے جسے جان ڈیوی اہم بننے کی امنگ قرار دیتا ہے۔ہم اپنے پیاروں کے جسموں کی پرورش کرتے ہیں۔لیکن ہم ان کے اعتماد اور خودی کی پرورش سے یکسر غافل رہتے ہیں۔ہم یہ یاد نہیں رکھ پاتے یا شاید یاد رکھنا نہیں چاہتے کہ لوگ تعریف حوصلہ افزائی اور داد و تحسین کے بھی ہمیشہ اتنے ہی بھوکے ہوا کرتے ہیں جتنا خوراک کے۔
یاد تو کیجیے گھر میں کھانے کے بعد ہم نے کب آخری بار پکانے والے یا پکانے والی کی تعریف کی تھی۔اپنے دفتر میں چائے کا پہلا یا آخری گھونٹ لے کر آفس بوائے سے "اچھی چائے کے لیے شکریہ "کب کہا تھا؟ ای میل یا بزنس لیٹر پر نظر ثانی کے بعد ڈرافٹنگ کے ذمہ دار کو ایکسیلینٹ جیسے مختصر مگر حوصلہ افزاء ریمارکس سے کبھی نوازا یا نہیں؟اگر واقعی ایسا کبھی نہیں ہوا یا آخری بار بہت طویل عرصہ پہلے ہوا تھا تو مان لیجئے کہ آپ نے دوسروں کا اعتماد خود ان کی اپنی ہی ذات پر نہیں بلکہ آپ کی اپنی ذات پر بھی کم کیا ہے۔آپ نے نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے بلکہ ان کے دلوں میں اپنے لیے اچھے جذبات کو بھی پیدا ہونے سے روکا ہے اپنے چاہنے والوں میں اضافہ نہیں ہونے دیا۔درحقیقت شکریہ ادا کرنے سے آدمی خود مفرح ہوتا ہے۔،اور اسکی روح پر ،اور اس کے وجود پر،اور اس کی شخصیت پر،اور اس کی فردیت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ آپ کی جانب سے دوسروں کی تعریف و توصیف اگر ان کی کارکردگی میں اضافے کا سبب ہوتی ہے تو یقین کیجئے یہ آپ کی شخصیت کو بھی اوروں کی نظر میں سحر انگیز بنا دیتی ہے۔جہاں کسی پر تنقید کرنا ناگزیر بھی ہو وہاں پہلے اس کی خوبیوں کی تعریف ضرور کیجئے کہ تعریف سننے کے بعد تنقید سننا زیادہ آسان ہوا کرتا ہے۔ایک بار دوران مطالعہ ایک خوبصورت جملہ نظر سے گزرا کہ نکتہ چینی کو کوئی پسند نہیں کرتا مگر نکتہ چینی کے انداز میں اگر آپ تھوڑی سی چینی بھی شامل کر دیں تو آپ کی عزت برقرار رہ سکتی ہے اور دوسرا شخص اپنی اصلاح بھی کر سکتاہے۔
اپنے وقت میں چالیس لاکھ ڈالر سالانہ تنخواہ پانے والے چارلس شواب کا کہنا تھا کہ اسے اتنی بڑی رقم محض اس لئے ادا کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں سے برتاؤ کا طریقہ جانتا تھا "اس کا کہنا تھا کہ میرا سب سے بڑا سرمایہ میری وہ قابلیت ہے جس کے ذریعے میں لوگوں میں امنگ پیدا کرتا ہوں اور کسی شخص کے جوہر کو ابھارنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔۔ تعریف اور حوصلہ افزائی۔  لوگوں میں کام کرنے کی تحریک پیدا کرنا میرا فرض ہے لہذا میں عیب جوئی سے نفرت کرتا ہوں۔ اگر مجھے کسی کسی کی کوئی بات پسند جائے تو میں جی بھر کے داد دیتا ہوں۔"
اس طرح کی شخصیت تعمیری کہلاتی ہے یہ لوگ دوسروں میں چھپی خوبیاں تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کے نزدیک ہر فرد میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے اور ان خوبیوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔انکی اس خوبی کی وجہ سے یہ لوگ ہر دلعزیز بنتے چلے جاتے ہیں۔لوگوں کو یہ یقین ہوتا جاتاہے کہ یہ شخصیت رکھنے والے ان کے ساتھ مخلص ہیں۔
ہم اپنے وقت کا 95 فی صد اپنے بارے میں سوچنے پر صرف کرتے ہیں جبکہ بقیہ 5 فی صد دوسروں کی خامیوں پر غور وفکر میں گزارتے ہیں 
آئیے اپنی توجہ اور وقت صرف اپنی ضروریات اور اوصاف کا جائزہ لینے پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے اردگرد سبھی لوگوں کے اچھے اوصاف کو یاد کرنے ان کی خوبیوں کا تجزیہ کرنے اور ان کی تعریف کرنے پر مرکوز کرتے ہیں ۔خوشامد کی ہر گز ضرورت نہیں مگر خوبیوں پر داد و تحسین ان کا حق ہے۔اچھی صلاحیتوں کی ستائش کریں جی بھر کہ داد دیجئے  وہ آپ کے کہے الفاظ کو پسند کریں گے اور زندگی بھر ان الفاظ کی صورت میں آپ کو یاد رکھیں گے۔
شاہد حبیب ایڈوکیٹ
  + 923332472648

تبصرے

  1. آپ کی تحریر بھی قابل داد و تحسین ہے۔عمدہ تحریر

    جواب دیںحذف کریں
  2. جب معاملات لین دین ، کاروباری اور ذاتی تسلی معیار کا ہو تب مزاج کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. جب معاملات لین دین ، کاروباری اور ذاتی تسلی معیار کا ہو تب مزاج کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. جب معاملات لین دین ، کاروباری اور ذاتی تسلی معیار کا ہو تب مزاج کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Sharing of any types of Links and sectarian , communal, blasphemous, hateful comments is strictly prohibited.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں

کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی

 کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں  بہت باکمال  تھے ہم  بھی ہماری  کھوج  میں رہتی تھیں تتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کے سن و سال تھے  ہم بھی زندگی کی گود میں سر رکھ کے سو گئے آخر  تمھارے عشق میں کتنے نڈھال تھے ہم بھی ضرورتوں   نے  ہمارا   ضمیر    چاٹ     لیا وگرنہ   قائل   رزق   حلال  تھے  ہم  بھی ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی پروین شاکر          हिंदी अनुवाद किसी का प्यार, किसी का विचार, हम भी अतीत में, हम भी बहुत समृद्ध थे तितलियाँ अक्सर हमारी तलाश में रहती थीं कि हम अपने शहर के वर्ष थे मैं अपनी गोद में सिर रखकर सो गया हम आपके प्यार में कितने कमजोर थे जरूरतें हमारे विवेक को चाट गई अन्यथा, जीविका के लिए आश्वस्त करना हमारे लिए भी उचित था हम एक ही धुन में चिंतन करते रहे कि हम जीवन में कभी भी अमर थे परवीन शा कि र

کامیابی کی پہیلی

Easy way To Success زمانہ طالب علمی میں کھبی اساتذہ تو کبھی ہم جماعت اکثر دلچسپ سوالات  اور پہیلیاں پوچھا کرتے تھے جن سے زندگی بھر کے لیے عقل و دانش سے بھرپور سبق ملتے تھے. اسکول کے زمانے میں اسی طرح کا ایک سوال ایک استاد نے ہم سے کیا تھا جب انہوں نے چاک سے بلیک بورڈ پر ایک لیکر کھینچی (تب وائٹ بورڈ اور مارکر کا رواج نہ تھا) اور پھر پوری کلاس کو چیلینج کیا کہ کون اس لکیر کو چھوئے یا مٹائے بغیر چھوٹا کر کے دکھا سکتا ہے؟ لکیر کو آگے یا پیچھے سے مٹائے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا مگر ٹیچر کی طرف سے تو اسے چھونے کی بھی اجازت نہ تھی.ہم سب شش و پنج میں پڑے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے  رہے مگر کسی کے پاس اس معمہ کی سلجھن نہ تھی لہزہ تھوڑی دیر بعد ہی ہار مان گئے. تب ہمارے لائق استاد نے بلیک بورڈ پر اپنی کھینچی ہوئی لکیر سے ذرا نیچے ایک دوسری لکیر کھینچی جو پہلی لکیر سے کافی زیادہ لمبی تھی اور پھر پوری کلاس کو دیکھتے ہوئے  سوالیہ انداز میں جواب دیا "اب ہوگئ پہلی لکیر چھوٹی؟" تمام طالب علموں نے حیرت سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا. اس سوال اور اس کے جواب میں ہم سب کی زندگیوں کو بدل دینے