ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ لوگ اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک...
کروناکی وبائی صورت حال کےدوران ڈاکٹرز،نرسز،پیرا میڈیکل اسٹاف, ایمبولینس ڈرائیورز, پولیس, سیکیورٹی فورسز مختلف رضاکار اداروں نے جس طرح جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات انجام دیں اس کے لئے وہ سب واقعی اس خراج تحسین کے مستحق ہیں جو معاشرے کے سبھی طبقات کی جانب سے انہیں پیش کیا جارہا ہے مگر یہاں ایک طبقہ اور بھی ہے جس نے لاک ڈاؤن اور کورونا کی وبائی صورت حال کے دوران گھروں کے اندر رہ کر بھی قوم کے مستقبل کی تعمیر کی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوئے اور انہیں ایک نئے اچھوتے اور منفرد طریقے سے سرانجام دیا جس کے لئے وہ اس خراج تحسین کے مستحق ہیں جو بدقسمتی سے انہیں اب تک پیش نہیں کیا گیا. یہ طبقہ ہمارے اساتذہ کا ہے جو آج تک اس عزت و توقیر سے محروم رہا ہے جو کہ ان کا استحقاق ہے. ہم ان کا خود پر واجب الادا یہ حق تو کیا ادا کرتے الٹا انہیں بیگار کا مزدور بنا ڈالا. اپنی مخصوص ذمہ داریوں سے ہٹ کر بھی جب کبھی الیکشن ہوں, مردم شماری ہو یہاں تک کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم ہو یا ڈینگی کی ہنگامی صورت حال ٹھنڈے دفاتر میں بیٹھے کابینہ کے معزز اراکین, صوبائی سیکریٹریز اور ضلعی ڈپٹی کمشنرز صاحبان کی نگاہ انتخاب ہمیشہ ان اساتذہ پر ہی جا کر ٹہرتی ہے جب کہ سرکار کے پاس ہزارہا اور بھی بے مقصد محکمے ہیں. میونسپل کارپوریشنز ہیں اور جب صلہ اور ستائش کا وقت آتا ہے تو کسی کو 'ماسٹر جی' اور 'استانی جی' کا خیال تک نہیں آتا.کورونا اور لاک ڈاؤن کے سبب تمام تعلیمی ادارے بند ہونے کے باوجود بچوں کا تعلیمی سلسلہ جاری و ساری رہا. وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہنگامی صورت حال میں آن لائن کلاسز کے ذریعہ بچوں کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جس کے لئے پہلے سے کوئی تیاری تھی نہ کوئی پلاننگ نہ اساتذہ کو کبھی ایسی تربیت دی گئی. حکومتوں اور اسکولوں کی طرف سے اساتذہ کو درکار اسمارٹ موبائل فون دئے گئے نہ ان کی خریداری کے لئے کوئی رقم فراہم کی گئ. اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جو انٹرنیٹ کے استعمال سے آگہی نہ رکھتی تھی نہ ان کے پاس اسمارٹ موبائل فون تھے. بحالت مجبوری انہوں نے خطیر رقم کے عوض اسمارٹ موبائل فون خریدے.ان کا استعمال سیکھا اور انٹرنیٹ سے واقفیت حاصل کی. والدین اور بچوں سے رابطہ استوار کیا. انہیں آن لائن کلاسز کے لئے راغب اور بمشکل آمادہ کیا کیوں کہ بہت سے والدین اسے بھی 'کمائی کا دھندہ' سمجھ کر بچوں کو پڑھوانے پر بالکل بھی راضی نہ تھے. ایسی صورت حال میں پڑھانا آسان نہ تھا. پھر طرفہ تماشہ یہ کہ خود اساتذہ کے اپنے بچوں کی بھی آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری تھا لہذہ وہ دو محازوں پر ایک ہی وقت میں برسرپیکار تھے کیوں کہ آن لائن طریقہ تعلیم میں والدین کو خود بچوں کے ساتھ بیٹھنا پڑتا تھا تو جو ٹیچر اپنے اسکول کے بچوں کی کلاس لے رہی ہوتی تھی وہ عین اسی وقت جاری اپنے بچے کی کلاس میں اس کی رہنمائی کے لئے شریک نہیں ہوپارہی تھی. دوسری طرف انہیں اس صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے دو دو موبائل خریدنا پڑ رہے تھے تاکہ ان کے ان کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہے. یہ معاملہ صرف سرکاری اسکولوں کے اساتذہ تک محدود نہ تھا. والدین سے بھاری فیس بٹورنے والے پرائیویٹ اسکولز کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا. بہت سے پرائیویٹ اسکولز نے تو 'بحران' کو بہانہ بنا کر کئ ٹیچرز کو ملازمت سے فارغ تک کرڈالا. ان سب عوامل کے باوجود اس بار بھی استاد ہمارے معاشرے میں صلہ تو درکنار اس ستائش کے بھی مستحق نہ ٹہرائے گئے جو ان کا حق بنتی تھی۔.ترقی یافتہ معاشروں میں ایک استاد کو کسی بھی طرح ڈاکٹر, سائنس دان, بیوروکریٹ, وکیل اور حج سے کم عزت نہیں دی جاتی مگر ہندوستان, پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اساتذہ کو ہمیشہ 'مفت کی کھانے والا' سمجھا جاتا ہے. انہیں کوئی خاص مراعات حاصل ہیں نہ وہ کسی استثناء کے حق دار ہیں. عمومی سوچ کا یہ حال ہے کہ سینکڑوں افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے والے بدنام پولیس افسران معطل اور گرفتار ہونے کے باوجود ہر تاریخ پر بغیر ہتھکڑی اور نئے کلف لگے سوٹ میں پورے افسرانہ پروٹوکول کے ساتھ عدالت میں پیشی پر لائے جاتے ہیں. گرفتار ہونے کے باوجود میڈیا سے بات چیت کرتے ہیں جب کہ یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسر کو عدالت میں ہتھکڑی لگا کر لایا جاتا ہے.ضرورت اس امر کی ہے اساتذہ کو عزت و احترام دینے کے لئے اپنے ملک کے ترقی یافتہ ہونے کا انتظار ترک کر دیا جائے. انہیں مردم شماری, الیکشن ڈیوٹی, پولیو, ڈینگی کے لئے اضافی افرادی قوت سمجھنا بند کیا جائے اور لاک ڈاؤن میں ان کی قابل قدر خدمات کا فوری اعتراف کیا جائے. ان کے لئے خصوصی ستائشی پروگرامز, انعامات اور الاؤنسز کا اعلان کیا جائے۔
تحریر: شاہد حبیب ایڈوکیٹ
+923332472648
قابل تحسین عنوان کا انتخاب اور بہترین تحریر!
جواب دیںحذف کریں