Sora e Rehman ka manzom trjuma by Josh Maleh Aabadi
اے فناانجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا
تیرگی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھائےگا
اس تمرد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا
کیا کریگا سامنے سے جب حجاب اٹھ جائےگا
کب تک آخراپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا
یہ سحر کا حسن یہ سیارگاں اور یہ فضاء
یہ معطر باغ یہ سبزہ یہ کلیاں دل ربا
یہ بیاباں یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا
سوچ تو کیا کیا کیا ہے تجھ کو,قدرت نے عطا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا
خلد میں حوریں تیری مشتاق ہیں آنکھیں اٹھا
نیچی نظریں جن کا زیور جن کی آرائش حیا
جن و انساں میں کسی نے بھی نہیں جن کو چھوا
جن کی باتیں عطر میں ڈوبی ہوئی جیسے صبا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا
اپنے مرکز سے نہ چل منہ پھیر کر بہر خدا
بھولتا ہے کوئی اپنی انتہاء اور ابتداء
یاد ہے وہ دور بھی تجھکو کہ جب تو خاک تھا
کس نے اپنے سانس سے تجھکو منور کردیا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا
سبز گہرے رنگ کی بیلیں چڑھی ہیں جابجا
نرم شاخیں جھومتی ہیں رقص کرتی ہے صبا
پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں دلفریب و خوش نما
جن کا ہر ریشہ ہے قند وشہد میں ڈوبا ہوا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا
پھول میں خوش بو بھری جنگل کی بوٹی میں دوا
بحر سے موتی نکالے صاف روشن خوش نماء
آگ سے شعلہ نکالا ابر سے آب صفاء
کس سے ہوسکتا ہے اس کی بخششوں کا حق ادا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا
ہر نفس طوفان ہے ہر سانس ہے اک زلزلہ
موت کی جانب رواں ہے زندگی کا قافلہ
مضطرب ہر چیز ہے جنبش میں ہیں ارض و سماء
ان میں قائم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیاء
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا
صبح کے شفاف تاروں سے برستی ہے ضیاء
شام کو رنگ شفق کرتا ہے کیا محشر بپا
چودھویں کے چاند سے بہتا ہے دریا نور کا
جھوم کر برسات میں اٹھتی ہے متوالی گھٹا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائےگا
(منظوم آزاد ترجمہ: جوش ملیح آبادی)
ماشاءاللہ بہترین انتخاب
جواب دیںحذف کریں