نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

صنفِ نازک کا استحصال۔


           تحریر :  جمیل شبیر
     2010 جنسی ہراسانی کے خلاف ہماری پارلیمنٹ نے قانون منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت لازم کیا گیا تھا
کہ اس کی دفعات ہر اُس کام کی جگہوں پر آویزاں کی جائیں جہاں خواتین کام کرتی ہیں، اور اس کے علاوہ جہاں جہاں یہ دفعات آویزاں کی جائیں وہاں وہاں تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے۔ اور اگر کوئی شکایت آئے تو دس دن کے اندر اندر اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ اور یہ قانون تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور کام کی جگہوں پر لاگو ہوگا۔
        آج اس قانون کو منظور ہوئے دس برس ہونے کو آئے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی کام کی جگہوں پر خواتین اور بچیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتاہے۔ پچھلے چند دنوں میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں خواتین کو ہراساں کیا گیا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کی طالبات کی طرف سے احتجاج کیا گیا جس میں پشاور یونیورسٹی کے تمام طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ طالبات کی طرف سے یہ شکایت تھی کہ اگر انہیں اپنی تعلیم کے بارے میں کوئی کام پڑتا ہے یعنی اپنے مقالات (تھیسس) کے6 سلسلے میں یا امتحانی پرچوں کے بارے میں تو اساتذہ انہیں اپنے کمرے میں بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ اکیلے آئیے گا۔ یا پھر انہیں فون پر دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر اچھے نمبرز چاہییں تو مجھ سے ملو، میرے پاس آؤ وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت ملنا بہت ہی مشکل ہے  اور اگر دوران تعلیم کسی لڑکی کے بارے میں کوئی افواہ پھیل جائے تو اُس بے چاری کی مصیبت آجاتی ہے اُس کو تعلیم چھوڑنے کا کہا جاتاہے گویا سارا قصور اُسی لڑکی کا ہے۔ اسی طرح ہسپتالوں میں جو لڑکیا ں ڈاکٹر ہیں یا نرس ہیں، وہ بھی مرد ڈاکٹر ز، پیرامیڈیکل اسٹاف، یہاں تک کہ اسپتال آنیوالے مریضوں اور ان کے تیمارداروں تک کے ہاتھوں پریشان رہتی ہیں۔ یہی حال ایئر ہوسٹس کا ہے جنہیں مسافر حضرات مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کرتے رہتے ہیں۔
        اسی طرح پچھلے دنوں لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر ایک خاتون اپنے تین بچوں کے ساتھ(ایک کی عمر چار سال، چھ سال اور سات سال تھی) رات بارہ بجے جارہی تھیں کہ پیٹرول ختم ہوگیا تو اُن خاتون نے موٹر وے پولیس کو کال کی لیکن پولیس سے پہلے دو ڈاکو آگئے جو اُس بے چاری خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کےبعد فرار ہوگئے۔ بعد میں پولیس نے ان کو گرفتار کرلیا اور اب اُن مجرمان پر کیس چل رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور خاتون (تبسم اعوان)کو کشمور سے اُس کی چار سالہ بچی(علیشاہ) کے ساتھ کراچی بلایا گیا، نوکری دلانے کے بہانے اور اسکے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، پھر اُس کو تیس ہزار روپے میں کسی اور کے ہاتھ فروخت کردیاگیا اور اُس شخص نے پندرہ دن تک اُس خاتون کو اپنے پاس رکھا اور زیادتی کرتا رہا، اس عرصے کے دوران اُس خاتون کی بچی پہلے والے مرد (رفیق ملک)کے پاس ہی تھی اور اُس مرد نے چار سالہ بچی (علیشاہ) کے ساتھ مسلسل جنسی زیادتی کی۔ اور جب تبسم اعوان نے اپنی بچی کو واپس مانگا تو اُس سے کہا گیا کہ وہ کسی اور لڑکی کا بندوبست کرے تب اُس کی بچی اُس کو واپس کی جائیگی، حالانکہ اُس درندہ صفت انسان (رفیق ملک) کی دو بیویاں ہیں اور دوسری بیوی سے اس کی ایک چھ سالہ بچی بھی ہے۔اسی طرح ضیاء  دور میں نواب پور میں پوری فیملی کی خواتین کو برہنہ کرکے گھمایا گیا۔
        حقیقت یہ ہے کہ عورت صرف ماں بہن اور بیٹی ہی نہیں بلکہ مرد کی طرح ایک پاکستانی شہری ہے اور جو آئینی حقوق مرد کے ہیں وہی آئین نے عورت کو بھی دئیے مگر عام مشاہدہ ہے کہ ذیادتی کا شکار اکثر خواتین اپنے ساتھ ہوءے ظلم  کیخلاف پولیس میں رپورٹ درج نہیں کراتیں۔ اُن پر گھر والوں کا دباؤ ہوتاہے کہ لوگ کیا کہیں گے برادری  اور خاندان کی عزت کا معاملہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر ملزم طاقتور ہو تو وہ مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کرتا ہے۔  پولیس رپورٹ درج نہیں کرتی صلح کے لئے دباو ڈالتی ہے اور اگر FIR  درج بھی ہوجائے تو اگلا مرحلہ متاثرہ خاتوں کا میڈیکو لیگل ایگزامینشن ہوتا ہے۔ اکثر میڈیکو لیگل آفیسرز کو مناسب تربیت نہیں دی جاتی، وہ خود کہتے ہیں کہ ہم تو لاشوں کے ڈاکٹر ہیں ہم پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اور بعض جگہوں پر تو یہ آفیسرز ہیں ہی نہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں صرف تین خواتین MLO's ہیں۔ پنجاب میں اس عہدے پر سرکاری ڈاکٹروں کی پوسٹنگ کی جاتی ہے جو کہ صرف چھ ماہ کیلئے ہوتی ہے اور جو آفیسرریپ کیس میں ایگزامینیشن کرتاہے اور وہ کیس جب ٹرائل میں پہنچتاہے تو اُس افسر کا تبادلہ ہوجاتاہے اور اس کی جگہ نئے آنیوالے افسر کو پھر شروع سے سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔اب اس کے بعد DNA کا مرحلہ آتاہے۔ نئے قانون کے مطابق DNA کرانا لازمی ہے۔بعض اوقات یہ تمام اخراجات متاثرہ خاتون کے لواحقین ہی برداشت کرتے ہیں۔
        اکثر کیسز میں دباو کے تحت خواتین اپنا بیان بدل دیتی ہیں اور یہ ہی حال عینی شاہدین بھی کا بھی ہوتا ہے۔ کثر اوقات عدالتوں کے باہر ہی معاملات کو نمٹا دیا جاتاہے. یہ سب معاملات جج کے علم میں ہوتے ہیں لیکن وہ خاموش رہتے ہیں۔ بعض کیسز میں متاثرہ خاتون کو خطرہ ہوتاہے کہ اُس کے گھر والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچادے لہٰذا اس خطرے کے پیشِ نظر وہ اپنا کیس واپس لے لیتی ہیں۔ پراسیکیوٹر کی بھی کوئی مناسب تربیت نہیں ہوتی، ان کا تقرر قابلیت کی بنیاد پر پر نہیں ہوتا. پھر مقدمہ کی سماعت اور اپیل در اپیل. اس تمام عرصہ میں میں پانچ سے دس سال گذر جاتے ہیں اور اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ صرف چار فیصد سے بھی کم ایسے کیسز ہیں جن میں متاثرہ خاتون کو انصاف ملا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں روزانہ دس سے بارہ ریپ کیسز ہوتے ہیں۔ گزشتہ چھ سال میں بائیس (۲۲) ہزار ریپ کیسز ہوئے، جن میں سے صرف0.3% کو انصاف ملا ہے۔یعنی بائیس ہزار میں سے صرف ستتر (۷۷)متاثرین کو انصاف ملاہے اور ملزمان کو سزا ہوئی ہے-!!!
        اب حالات اور اعداد وشمار کی روشنی میں عقل تو یہ کہتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے مردوں کو بہت ذیادہ تربیت کی بڑی سخت ضرورت ہے مگر نہیں جناب اس کا حقدار بھی عورت ہی کو سمجھا جاتا ہے. اس کہا جاتا ہے کہ گھروں میں رہو، زیادہ تعلیم حاصل مت کرو، فیشن نہیں کرو، اس طرح کا لباس پہنو، اس طرح کا نہ پہنو، یہ نہیں کرو، وہ نہیں کرو ۔ ناکام معاشرے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ کمزور کو سمجھایا جائے کہ طاقتور سے ”پنگا“نہ لے۔  مرد کے کان میں پیدا ہوتے ہی پھونک دیا جاتاہے کہ وہ برتر ہے صرف اس لئے کہ وہ مرد ہے۔ کیا ایک باورچی،ایک دھوبی، ایک قصائی، ایک نائی، مدر ٹریسا، بلقیس ایدھی، جون آف آرک یا بے نظیر بھٹو سے صرف اس لئے برتر قرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ مردہے؟
روس میں عورتیں ہر شعبے میں بغیر میک اپ اور آرائش و زیبائش کےبالکل مردوں کی طرح وردیاں پہنے ہوئے کام کرتی ہیں. بسا اوقات تو فرق کرنا مشکل ہوجاتاہے،اُن سے پوچھا جائے تو  تو جواب آتا ہے کہ ”ہم نہیں چاہتیں کہ یہاں کام کے دوران کسی طرح کی نسوانیت یا مردانگی کا مظاہر کیا جائے“۔ پھر سوال کیا گیا کہ آپ لوگ تو پھر مشین بن جائیں گی؟ جواب آیا کہ”کیا مشین کوئی حقیر شے ہے، ہاتھوں سے بنی مشینیں پتھروں سے تراشے ہوئے بتوں سے کچھ کم مقدس ہیں اگر وہ پتھر کے بت کسی کی سنتے ہیں تو یہ مشینیں بھی ہماری ان داتا ہیں، ہمیں گائے بیل سے زیادہ پیاری ہیں کیونکہ ہم نے انہیں بڑی محبت سے بنایا ہے اور اگر ہم ان مشینوں جیسے ہوجائیں اور اتنی ہی شرافت اور ایمانداری سے کام کریں تو ہماری زندگی کا مقصد پورا ہوجائے. ان مشینوں میں سے کوئی بھی مشین نہ عورت ہے اور نہ ہی مرد، اسی طرح انہیں چلانے والے بھی مرد اور عورت نہیں" 
ہمیں  تعلیمی نصاب کو ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو بتایا جائے کہ انہیں کس طرح اپنا تحفظ کرنا ہے۔ اور مذہبی لیٹریچر میں جس طرح سے عورت کو پیش کیا جاتاہے اُس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح تربیت کی گھریلو ترتیب کو بھی درست کرنا ہوگا.اس بارے میں روشن خیال اہل علم کی رائے کو بھی نصاب کا حصہ بنایاجائے۔ بنیاد پرست، قدامت پسند اور نام نہاد اہل علم کی رائے کو بالکل بھی اہمیت نہ دی جائے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں

کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی

 کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں  بہت باکمال  تھے ہم  بھی ہماری  کھوج  میں رہتی تھیں تتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کے سن و سال تھے  ہم بھی زندگی کی گود میں سر رکھ کے سو گئے آخر  تمھارے عشق میں کتنے نڈھال تھے ہم بھی ضرورتوں   نے  ہمارا   ضمیر    چاٹ     لیا وگرنہ   قائل   رزق   حلال  تھے  ہم  بھی ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی پروین شاکر          हिंदी अनुवाद किसी का प्यार, किसी का विचार, हम भी अतीत में, हम भी बहुत समृद्ध थे तितलियाँ अक्सर हमारी तलाश में रहती थीं कि हम अपने शहर के वर्ष थे मैं अपनी गोद में सिर रखकर सो गया हम आपके प्यार में कितने कमजोर थे जरूरतें हमारे विवेक को चाट गई अन्यथा, जीविका के लिए आश्वस्त करना हमारे लिए भी उचित था हम एक ही धुन में चिंतन करते रहे कि हम जीवन में कभी भी अमर थे परवीन शा कि र

اساتذہ نشانے پر کیوں؟؟؟؟DISCRIMINATORY PROTOCOL

 عزت ماب جناب عمران احمد خان نیازی صاحب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان. . عزت ماب جناب عثمان بوزدار صاحب وزیراعلی پنجاب. السلام و علیکم, کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی ایک خاتون افسر جن کا نام اب راقم کی یاد داشت میں نہیں اور پشاورشہر کی سارہ تواب نامی خاتون ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی اپنے شیرخوار و نونہال بچوں کو گود میں بٹھا کر اپنے دفاتر میں محکمانہ اور پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جنہیں عوامی سطح پر بہت سراہا گیا. متعلقہ محکموں اور حکومتوں کی جانب سے بھی ان تصاویر پر کسی منفی ردعمل کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا جس سے اندازہ ہوا کہ سرکار کو ملازمت پیشہ ماؤں اور ان کے بچوں کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔. اب آئیے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب.  آج سوشل میڈیا پر ضلع میانوالی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری اہجوکیشن کے دفتر سے مورخہ 26/9/2020 کو جاری ہونے والا ایک حکم نامہ معطلی کا عکس بھی وائرل ہوا جس پر مجاز افسر مسمی محمد خلیل پراچہ صاحب کے دستخط بحروف انگریزی بھی ثبت ہیں جس میں عشرت ستار نامی ایک خاتون ٹیچر کو معطل کرتے ہوئے متعلقہ