نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

بحث و تکرار _____ آپ کی اصل ہار



 مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے حوالے سے ایک بڑا مشہور واقعہ ہم میں سے اکثریت کے مطالعہ سے گذرا ہوگا کہ ایک بار وہ کلام الہی کی کتابت میں مشغول تھا کہ پاس موجود ایک مہمان نے اس کی لکھی ایک آیت غلط قرار دے کر اسے دوبارہ درست لکھنے کے لیے کہا. شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے اول اول اپنی لکھی آیت کو درست قرار دیا جس پر مہمان نے بضد ہو کر اس آیت قرآنی پر اپنے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے اسے دوبارہ ٹھیک طرح سے لکھنے کا مشورہ دوہرایا.  اس بار اورنگ زیب نے وہ آیت مٹا کر مہمان کی تجویز کے مطابق دوبارہ تحریر کردی جس پر مہمان کے چہرے پر طمانیت کے آثار نمایاں ہوگئے اور اس کا رویہ شہنشاہ کی جانب خوش گوار ہوگیا. کچھ دیر بعد جب وہ مہمان رخصت ہوا تو اورنگ زیب نے اس کے مشورے کے مطابق لکھی آیت کو مٹا کر دوبارہ اسی طرح تحریر کردی جس طرح اس نے پہلے تحریر کی تھی. مصاحبین نے حیران ہو کر دریافت کیا جہاں پناہ آپ نے تو اس شخص کے کہے کو درست تسلیم کر کے آیت تبدیل کی تھی تو اب آپ نے دوبارہ اس طرح کیوں تحریر کی جسے آپ غلط مان چکے تھے. شہنشاہ اورنگ زیب نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں جانتا تھا کہ درست آیت وہی ہے جس طرح میں نے تحریر کی مگر چوں کہ وہ صاحب اپنی کم علمی یا کسی بھی اور وجہ کے سبب میرے لکھے کوغلط قرار دینے پر بضد تھے اس لئے اگر بحث و تکرار کرنے کے بجائے وقتی طور پر میں اس کے غلط موقف کو درست تسلیم نہ کرتا تو یقینی طور پر اس کی دل آزاری ہوتی اس کی انا اور احساس برتری کے جذبے کو ٹھیس پہنچتی اور وہ رنجیدہ ہوتا لہذہ میں نے اس کی تعظیم و تکریم کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے لکھے کو مٹا کر اس کی تجویز کے مطابق تحریر کردیا جس کے نتیجہ میں وہ دربار سے خوش اور مطمئن رخصت ہوا۔.
اکثر و بیشتر مشاہدے میں آتا ہے  کہ کسی تقریب, دفتر, کلاس روم, گھر, دوستوں یا قرابت داروں کی محفل میں جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو بعض اوقات کسی بھی معمولی سے معمولی موضوع پر بلاوجہ کی بحث و تکرار میں ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں اور بحث میں شریک ہر فریق خود کو درست ثابت کرنے کے لئے دنیا جہان کے دلائل کے انبار لگا دیتا ہے. تقریب خوشی کی ہو یا غم کی, اس طرح کی صورت حال کا ہمیں اکثر و بیشتر سامنا کرنا پڑتا ہے. بحث وتکرار میں الجھے فریقین یہ بھی یاد نہیں رکھ پاتے کہ وہ تقریب کو ماحول خراب کر رہے ہیں. سب سے خطرناک صورت حال تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی صاحب کسی موضوع پر اپنی معلومات کو درست جان کر اپنا موقف بیان کر رہے ہوتے ہیں اور کوئی اور صاحب گفتگو کے خاص حصہ کو اپنی معلومات کے مطابق "غلط" جان کر درمیان میں مخل ہو کر فیصلہ سناتے ہیں "نہیں جناب. یہاں آپ غلط کہہ رہے ہیں.اس طرح درست نہیں." اب یہاں سے ماحول یک دم تبدیل ہوجاتا ہے اور ایک نئی بحث کا آغاز ہوجاتا ہے جسے حجت بازی کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے. ایسے لوگ یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ ان سے تو رائے طلب بھی نہیں کی گئی تھی نہ انہیں کسی نے اوروں کی معلومات و خیالات کے صحیح یا غلط ہونے کے فیصلہ صادر فرمانے کے لئے منصف یا قاضی مقرر کیا تھا. محفل میں سبھی ہماری طرح بطور مہمان شریک ہیں. ہمیں کیا ضرورت ہے کہ دوسروں کو جھوٹا اورغلط ثابت کریں. ہم بن مانگے رائے دینے کا حق نہیں رکھتے. کسی کی سجائی محفل کا حسن غارت کر کے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا. سب سے بڑھ کر بلاوجہ کی بحث و تکرار خود ہمارے اپنے مفاد میں بھی نہیں. حجت بازی سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہئے. بلاوجہ کے دلائل سے آپ کبھی کوئی بحث نہیں جیت پائیں گے. بحث جیتنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے. دلیل بازی سے مکمل پرہیز.اس سے کینسر اور ٹی بی کی طرح دور بھاگنا چاہیے. آپ دلیل کو نہیں حیت سکیں گے. آپ دلیل کو جیت بھی جائیں تو مان لیجیے کہ آپ ہار گئے. وجہ؟؟ فرض کیجیے کہ آپ مقابل کی ہر دلیل کو رد کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے آپ نے اس پر فتح پالی اسے غلط بھی ثابت کر دیا تو آپ تو خوش ہوں گے مگر آپ کا مقابل؟؟؟اسے آپ کی فتح سے کتنی محبت ہوگی؟؟ آپ نے اسے نیچا دکھایا ہے اس کے غرور کو سرنگوں کیا ہے. اسے آپ کی جیت سے نفرت ہوگی.شدید نفرت اور بالآخر خود آپ کی شخصیت بھی اس نفرت کے نشانہ پر ہوگی اور عین ممکن ہے کہ سامعین میں سے کچھ آپ کے مقابل کے موقف سے متفق ہوں تو اندازہ کیجیے کہ آپ نے کتنے دلوں میں اپنے لئے منفی تاثر پیدا کیا. انسانی ذہن کبھی بحث و تکرار سے تبدیل نہیں کیے جاسکتے نہ ہی انسانی دلوں کو کج بحثی سے تسخیر کیا جاسکتا ہے.اپنے گھر,  خاندان, حلقہ احباب کی طرح ملازمت, کاروبار, دنیاوی لین دین غرض کسی بھی جگہ بحث و تکرار اور حجت آپ کو کوئی کامیابی دلانے میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتی. انشورنس, مارکیٹنگ اور سیلز سے وابستہ کئی اداروں نے اپنے لیے ایک واضح پالیسی کا تعین کیا ہوا ہے اور وہ ہے "بحث مت کرو". کاروبار اور تکرار دو متضاد باتیں ہیں. آپ دلیل بازی, جھوٹے اور دوسرے کی مخالفت سے اگر کبھی کامیابی حاصل کر بھی لیں گے تو یہ بالکل بے معنی ہوگی کیوں کہ مدمقابل کو جیتے بغیر مدمقابل سے جیتنا کوئی معنی نہیں رکھتا. محض بحث سے کسی کا نقطہ نظر تبدیل نہیں کیا جاسکتا. لوگوں کی غالب اکثریت میں احساس برتری کی بھوک پائی جاتی ہے. جب تک آپ ان سے بحث کرتے رہیں گے وہ ڈٹ کر بڑے خوش و خروش سے آپ کا مقابلہ کر کے اپنی اس بھوک کی تسکین کرتے رہیں گے مگر جوں ہی آپ ان کی برتری کو تسلیم کریں گے انہیں اپنی انا کو بلند کرنے کا موقعہ دیں گے بحث ختم ہوجائے گی اور وہ آپ کے لئے ایک انتہائی ہم درد اور مہربان انسان کے طور پر سامنے آئیں گے.  چھوٹی موٹی تکرار میں کبھی دوست, شریک حیات, گاہک, ماتحت یا افسر سے ہار میں بھی آپ کی اصل کامیابی پنہاں ہے. بالکل اسی طرح کسی غلط فہمی کا خاتمہ بھی دلیل اور بحث سے ممکن نہیں. اس کے بجائے حکمت عملی, حسن سلوک, سمجھوتہ اور فریق مخالف کے نقطہ نظر کو سمجھنا زیادی اہمیت رکھتا ہے. اپنی غلطی مان لیجیے خواہ آپ خود کو بے قصور ہی سمجھتے ہوں. اس طرح چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی کا اعتراف بھی سب کی نظر میں آپ کے قد میں اضافہ کے سبب بنتا ہے. لوگوں کو اپنا گرویدہ اور ہم خیال بنانے کا اولین اصول ہے کہ "آپ بحث و تکرار سے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے".
تحریر: شاہد حبیب ایڈوکیٹ
+923332472648

تبصرے

  1. مباحثے سے اتنا ضرور ہوتا ہے کہ سامنے والے کی ذہنی استعداد کا جب بخوبی پتہ چل جاۓ تو خاموشی اختیار کرلی جاۓ

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب صورتی سے آپ نے ایک سلگتے ہوئے معاشرتی مسئلے پر روشنی ڈالی ہے اور اس کا حل بھی بتا دیا۔
    میرے تجربے اور علم کے مطابق مکالمے اور مناظرے میں لوگ فرق نہیں کرتے اور بد قسمتی یہ ہے کہ فرقہ واریت کی وجہ سے یہ مناظرانہ رنگ ہمارے معاشرے میں پھیل گیا ہے۔
    جس دن لو گوں کو مکالمہ کرنا آگیا اس طرح کے مسائل کافی سے زیادہ حل ہوجائیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت شاندار اور عمدہ تحریر ہے. اللہ ہمارے معاشرے میں بہتری فرمائے. آمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. میں آپ کی باتوں سے 100% متفق ہوں تھوڑا سا اضافہ کر نا چاہوں گا کہ دنیا میں سب سے پر اثر شخصیات وہ ہوتی ہیں جو تحمل سے دوسرے پوری بات سن کر اپنی دلیل اس کی صحیح باتوں کی تعریف کرتے ہوئے اس انداز میں پیش کریں جس سے سامنے والے کی دل آزاری نہ ہو۔ اپنے سچ کے لئیے کسی کا دل توڑنا مناسب نہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Sharing of any types of Links and sectarian , communal, blasphemous, hateful comments is strictly prohibited.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں

کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی

 کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں  بہت باکمال  تھے ہم  بھی ہماری  کھوج  میں رہتی تھیں تتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کے سن و سال تھے  ہم بھی زندگی کی گود میں سر رکھ کے سو گئے آخر  تمھارے عشق میں کتنے نڈھال تھے ہم بھی ضرورتوں   نے  ہمارا   ضمیر    چاٹ     لیا وگرنہ   قائل   رزق   حلال  تھے  ہم  بھی ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی پروین شاکر          हिंदी अनुवाद किसी का प्यार, किसी का विचार, हम भी अतीत में, हम भी बहुत समृद्ध थे तितलियाँ अक्सर हमारी तलाश में रहती थीं कि हम अपने शहर के वर्ष थे मैं अपनी गोद में सिर रखकर सो गया हम आपके प्यार में कितने कमजोर थे जरूरतें हमारे विवेक को चाट गई अन्यथा, जीविका के लिए आश्वस्त करना हमारे लिए भी उचित था हम एक ही धुन में चिंतन करते रहे कि हम जीवन में कभी भी अमर थे परवीन शा कि र

اساتذہ نشانے پر کیوں؟؟؟؟DISCRIMINATORY PROTOCOL

 عزت ماب جناب عمران احمد خان نیازی صاحب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان. . عزت ماب جناب عثمان بوزدار صاحب وزیراعلی پنجاب. السلام و علیکم, کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی ایک خاتون افسر جن کا نام اب راقم کی یاد داشت میں نہیں اور پشاورشہر کی سارہ تواب نامی خاتون ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی اپنے شیرخوار و نونہال بچوں کو گود میں بٹھا کر اپنے دفاتر میں محکمانہ اور پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جنہیں عوامی سطح پر بہت سراہا گیا. متعلقہ محکموں اور حکومتوں کی جانب سے بھی ان تصاویر پر کسی منفی ردعمل کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا جس سے اندازہ ہوا کہ سرکار کو ملازمت پیشہ ماؤں اور ان کے بچوں کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔. اب آئیے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب.  آج سوشل میڈیا پر ضلع میانوالی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری اہجوکیشن کے دفتر سے مورخہ 26/9/2020 کو جاری ہونے والا ایک حکم نامہ معطلی کا عکس بھی وائرل ہوا جس پر مجاز افسر مسمی محمد خلیل پراچہ صاحب کے دستخط بحروف انگریزی بھی ثبت ہیں جس میں عشرت ستار نامی ایک خاتون ٹیچر کو معطل کرتے ہوئے متعلقہ