نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

اساتذہ نشانے پر کیوں؟؟؟؟DISCRIMINATORY PROTOCOL


 عزت ماب جناب عمران احمد خان نیازی صاحب
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان.
. عزت ماب جناب عثمان بوزدار صاحب
وزیراعلی پنجاب.
السلام و علیکم,
کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی ایک خاتون افسر جن کا نام اب راقم کی یاد داشت میں نہیں اور پشاورشہر کی سارہ تواب نامی خاتون ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی اپنے شیرخوار و نونہال بچوں کو گود میں بٹھا کر اپنے دفاتر میں محکمانہ اور پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جنہیں عوامی سطح پر بہت سراہا گیا. متعلقہ محکموں اور حکومتوں کی جانب سے بھی ان تصاویر پر کسی منفی ردعمل کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا جس سے اندازہ ہوا کہ سرکار کو ملازمت پیشہ ماؤں اور ان کے بچوں کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔.
اب آئیے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب. 
آج سوشل میڈیا پر ضلع میانوالی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری اہجوکیشن کے دفتر سے مورخہ 26/9/2020 کو جاری ہونے والا ایک حکم نامہ معطلی کا عکس بھی وائرل ہوا جس پر مجاز افسر مسمی محمد خلیل پراچہ صاحب کے دستخط بحروف انگریزی بھی ثبت ہیں جس میں عشرت ستار نامی ایک خاتون ٹیچر کو معطل کرتے ہوئے متعلقہ اسکول کی پرنسپل کو سخت الفاظ میں ہدایت دی گئی ہے کہ وہ عرصہ معطلی کے دوران مزکورہ خاتون ٹیچر کی اسکول میں حاضری کو یقینی بنائیں.ساتھ ہی معطل کی گئی خاتون استانی کو عرصہ معطلی کے دوران تنخواہ وصول کرنے کی اجازت عنایت فرما کر خصوصی لطف و کرم کامظاہرہ بھی کیاگیا ہے۔معطلی آرڈر میں خاتون ٹیچر کی  معطلی کا پس منظر کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ مورخہ 23/9/2020 کوضلع میانوالی کی تحصیل پیپلاں کے نواحی علاقہ ہرنولی میں واقع گورنمنٹ ہائر سیکینڈری اسکول کا جناب چیف ایگزیکٹیو آفیسرضلع میانوالی نے سرپرائز وزٹ کیا جس کے دوران صاحب بہادر نے اسکول میں تعینات خاتون ٹیچر مسمات عشرت ستارکو اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتا یا انہیں کھلاتا ہوا پایا. افسر مجاز صاحب بہادر نے خاتون ٹیچر کے اس عمل یعنی ایک ملازمت پیشہ ماں کے اپنے بچوں کو کھلانے کو کوڈ آف کنڈکٹ کی کسی پرویژن کا حوالہ دئیے بغیر مس کنڈکٹ سے تعبیر کرتے ہوئے معطلی کا سزاوار ٹہرایا.
اب یہاں پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خواتین سول سرونٹس, خواتین بیوروکریٹس اور خواتین اساتذہ کے لیے ایک ہی ملک اور ایک ہی صوبہ میں دو مختلف کوڈز آف کنڈکٹ ہیں یا پیشہ تدریس سے تعلق رکھنے والوں کی تذلیل کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینے کی قسم کھالی گئ ہے؟
حیرت ہے کہ حکم نامہ معطلی جاری کرنے سے قبل مجاز افسر صاحب بہادر نے خاتون ٹیچر سے یہ وضاحت کیوں نہ مانگی کہ پیشہ تدریس اختیار کرنے کے بعد آپ نے ماں بننے کی خواہش کو سینے میں دفن کیوں نہ کیا اور اگر اولاد پہلے سے عطا کردی گئ تھی تو پھر پنجاب کو پڑھا لکھا بنانے کے لیے محکمہ تعلیم میں ملازمت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور یہ کہ ملازمت جوائن کرنے سے قبل اپنے بچوں کی تعداد اور عمر کے علاوہ مستقبل میں کنبہ بڑھانے کے اپنے ارادوں سے محکمہ تعلیم کے فرعونوں کو آگاہ کرنا کس لئے ضروری نہ سمجھا؟
مس کنڈکٹ کے علاوہ خاتون ٹیچر پر لگائے گئے دوسرے الزام یعنی inefficiency کے حوالے سے ڈھونڈنے پر مختلف انگریزی ڈکشنریز سے دو ہی معنی مل سکے. 'نااہل' اور 'کاہل'. اب یہاں لاکھ کوشش کے باوجود سمجھ نہیں آرہا کہ ایک طرف جس خاتون کو پوسٹ کے لئے درکار مطلوبہ تعلیمی معیار پر پورا اترنے کے باوجود تحریری امتحان اور انٹرویو کے مراحل سے گزرنے کے بعد نامعلوم کتنی امیدواروں کے مقابل 'اہل' جان کر ملازمت دی گئ ہو جس کے خلاف شاگردوں کے والدین اور پرنسپل نے تدریس میں تساہل برتنے کی شکایت نہ کی ہو اور معطلی کے باوجود جسے تنخواہ وصول کرنے کا اہل سمجھا گیا ہو اسے محض اپنی اولاد کو اسکول میں ساتھ کھلانے کے "جرم" میں نااہل اور کاہل کیسے قرار دیا گیا؟ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ حکم نامہ معطلی کے مطابق صاحب بہادر نے اسکول کا سرپرائز وزٹ کیا تھا نہ کہ متاثرہ ٹیچر کے خلاف موصولہ کسی شکایت پر.
صاحب بہادر کہ جن کے نام سے ان کا مسلمان ہونا صاف ظاہر ہو رہا ہے یہ بھی فراموش کرگئے کہ ساری انسانیت کو ایک آفاقی کوڈ آف کنڈکٹ عطا کرنے والی الہامی کتاب قرآن مجید نے اسکول ٹیچرز سمیت سبھی ماؤں کو اپنے بچوں کو دو سال دودھ پلانے کا حکم دیا ہے اور ولادت سے دو سال تک کی عمر کے بچے کو شیر مادر کی طلب کسی بھی وقت ہوسکتی ہے اور اس عمر کے بچے کو کسی بھی بنیادی ضرورت کے لئے کسی بھی نظام الاوقات کا پابند نہیں بنایا جا سکتا. اس عمر کے بچے کی ماں کے ملازمت پر جانے کے لئے گھر سے نکلنے سے گھر واپس لوٹنے تک کے کئی گھنٹوں پر محیط دورانیہ تک کے لئے نوزائیدہ یا دو سال کے بچے کو کس طرح شیر مادر کی طلب محسوس کرنے سے روکا جائے کاش حکم نامہ معطلی میں اس بات کی بھی وضاحت آجاتی تو کیا ہی اچھا ہوتا. دو سال کی عمر کے بعد بھی بچہ 4 سے 5 سال تک کی عمر کو پہنچنے تک خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے والدین بالخصوص ماں کا ہی محتاج ہوتا ہے. طرفہ تماشہ یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے یہ فرعون صفت افسران خواتین اساتذہ میٹرنٹی لیو کی درخواستیں منظور کرکے ایک طرف ان کے ماں بننے کے فطری حق پر ایک طرح کا غیرمشروط نو آبجیکشن تو دیتے ہیں مگر ماں بننے کے بعد خاتون ٹیچر کو اپنے بچے کی پرورش کا حق دینے پر تیار نہیں ہوتے جو درحقیقت دنیا میں آنے والے بچے کا بھی بنیادی حق ہے. ان کے خیال میں صبح 8 سے دوپہر 2 بجے تک ایک خاتون ٹیچرز صرف قوم کے بچوں کی ماں ہوتی ہے اور اس دوران اسے اپنی اولاد سے ہر رشتہ منقطع کر لینا چاہئے.
خواتین اساتذہ کی اکثریت کی پوسٹنگ ان کی رہائش کے نزدیک نہیں. ان کی ایک بڑی تعداد تو گھر سے کئی کلومیٹر دور دیہات میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے روزانہ گھنٹوں آمدورفت اور تکلیف دہ سفر کا عذاب بھی سہتی ہے اور بسا اقات ان کے سفر کا دورانیہ ان کے اوقات کار سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے.ان حالات میں خواتین اساتذہ پر اپنی اولاد کو ساتھ نہ لانے کی پابندی؟؟؟؟ چند ہزار روپیہ ماہانہ تنخواہ کے عوض ایک ماں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شیرخوار یا نونہال بچے کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کر کے قوم کے بہت سارے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے.
میں زاتی طور پر گذشتہ سال اپنی واقف ایک خاتون ٹیچر کے ساتھ رونماء ہونے والے ایک المیہ کا چشم دید گواہ ہوں کہ جسے اپنی چند ماہ کی بیمار بچی کو اسکول ساتھ نہ لانے کی غیر انسانی پابندی عائد کر کے بالواسطہ طور پر مجبور کیا گیا کہ وہ اس ننھی سی جان کو اللہ اور اپنے  ہمسایوں کے سپرد کر کے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لئے اسکول آئے جو ظاہر ہے اس کی سگی ماں کی طرح اس کا خیال نہ رکھ سکے اور چند ماہ کی ننھی سی جان ,مناسب دیکھ بھال اوردرکار توجہ سے محرومی کے سبب ICU اور وینٹی لیٹر تک جا پہنچی اور بالآخر انتقال کرگئ۔.
عشرت ستار اور اس جیسی ہزاروں خواتین اساتذہ جو روزانہ کئ گھنٹے اس ملک کے لاکھوں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے پر صرف کرتی ہیں وہ صرف اس قوم کے بچوں کی کی نہیں اپنے بچوں کی بھی ماں ہیں. قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے تو اپنے بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال ان کا بنیادی اور اولین حق بھی ہے اور فرض بھی۔.
چھوٹے بچوں کو ساتھ اسکول نہ لانے کی غیرانسانی, غیر اخلاقی, غیرمنطقی اور بلاجواز پابندیوں اور سختیوں کے سبب خواتین اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کنبہ میں اضافہ کی خواہش کو دل کے نہاں خانوں میں دفن کرنے پر مجبور کی جارہی ہیں جو کہ ان کا محض انسانی ہئ نہیں بلکہ ملکی آئین کے تحت ایک آئینی حق بھی ہے. دیگر ممالک میں سرکاری و غیر سرکاری ادارے ملازمت پیشہ ماؤں کے لئے نرسری کی سہولت فراہم کرتے ہیں. پاکستان میں بھی کچھ نجی ادارے یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں. سٹی کورٹ کراچی میں خواتین وکلاء کے لئے یہ سہولت فراہم کی گئی ہے جہاں وہ صبح سے دوپہر تک اپنے شیرخوار اور نونہال بچوں کو چھوڑ کر یکسوئی کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں. کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے سرکاری محکموں کی خواتین ملازمین بالخصوص خواتین اساتذہ کو یہ سہولت فراہم نہیں کی جارہی. کیا علم بانٹنے کے لیے خواتین اساتذہ ماں بننے اور اپنی اولاد کی پرورش کے حق سے دستبردار ہوجائیں؟
اس ساری صورت حال میں اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ محکمہ تعلیم عشرت ستار سمیت سبھی خواتین اساتذہ سے تحریری معافی مانگ کر انہیں 4سال تک کی عمر کے اسکول نہ جانے والے سبھی بچوں کو اپنے ساتھ اپنے اسکول لانے کی فوری اجازت دیں. تمام دفاتر اور اسکولوں میں ملازمت کرنے والی خواتین کو نرسری اور آیا کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی پرورش کا فریضہ بھی بہ احسن و خوبی ادا کرسکیں.
راقم کو اپنی حکومت سے اس سلسلے میں فوری اور مثبت اقدامات کی توقع ہے.
آپ کے منصب کے تقاضوں اور گوناگوں مصروفیات کا اندازہ ہونے کے سبب آپ کے نام اپنا یہ مراسلہ بزریعہ کوریئر ارسال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بلاگ اور سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کر رہا ہوں.
           والسلام 
                  خیراندیش
          شاہد حبیب ایڈوکیٹ
     دفتر:204, انجار والا بلڈنگ
    بالمقابل سٹی کورٹ کراچی
+923332472648

تبصرے

  1. Jagirdarana soch ore ghulami pasand afrad ko jub power milta he tou aisa hi hoga he

    جواب دیںحذف کریں
  2. شاہد صاحب آپ نے بہت اہم معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی ہے اور مناسب حل بھی پیش کیا ہے اس حوالے سے فوری قانون سازی کی جاسکتی ہے ایسی خواتین جن کے نوزائدہ بچے ہوں انھیں ادارے کی جانب سے آیا سمیت ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ مکمل یکسوئی سے اپنے فرائض بااحسن طریقہ سے انجام دے سکیں
    بصورت دیگر اداروں میں سوال موجود رہے گا کہ کیا ملازمت پیشہ خواتین نسل انسانی کی ترویج و تربیت کو ترک کردیں ؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. شاہد صاحب آپ نے بہت اہم معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی ہے اور مناسب حل بھی پیش کیا ہے اس حوالے سے فوری قانون سازی کی جاسکتی ہے ایسی خواتین جن کے نوزائدہ بچے ہوں انھیں ادارے کی جانب سے آیا سمیت ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ مکمل یکسوئی سے اپنے فرائض بااحسن طریقہ سے انجام دے سکیں
    بصورت دیگر اداروں میں سوال موجود رہے گا کہ کیا ملازمت پیشہ خواتین نسل انسانی کی ترویج و تربیت کو ترک کردیں ؟

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Sharing of any types of Links and sectarian , communal, blasphemous, hateful comments is strictly prohibited.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں

کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی

 کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں  بہت باکمال  تھے ہم  بھی ہماری  کھوج  میں رہتی تھیں تتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کے سن و سال تھے  ہم بھی زندگی کی گود میں سر رکھ کے سو گئے آخر  تمھارے عشق میں کتنے نڈھال تھے ہم بھی ضرورتوں   نے  ہمارا   ضمیر    چاٹ     لیا وگرنہ   قائل   رزق   حلال  تھے  ہم  بھی ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی پروین شاکر          हिंदी अनुवाद किसी का प्यार, किसी का विचार, हम भी अतीत में, हम भी बहुत समृद्ध थे तितलियाँ अक्सर हमारी तलाश में रहती थीं कि हम अपने शहर के वर्ष थे मैं अपनी गोद में सिर रखकर सो गया हम आपके प्यार में कितने कमजोर थे जरूरतें हमारे विवेक को चाट गई अन्यथा, जीविका के लिए आश्वस्त करना हमारे लिए भी उचित था हम एक ही धुन में चिंतन करते रहे कि हम जीवन में कभी भी अमर थे परवीन शा कि र