نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک...

افسانہ "قرض" از عامر سہیل

 

قرض

تحریر ۔۔۔۔۔عامر سہیل

 اُس نے اپنے ماضی میں لیے گئے قرض کو اتارنے کیلئے ہزار جتن کیے مگر ناکام رہا، اب وہ پورا دن خود کو کوستا رہتا اور ملامت زدہ رہتا کہ اُس نے ایسا ہیچ کام کیا ہی کیوں تھا جس نے اس کی تمام جمع پونجی ختم کر دی، اب اسے زیادہ سے زیادہ پیسے چاہییں تھے مگر اُس کے پاس نہ تو کرنے کو کوئی دھندہ تھا اور نہ ہی وہ ڈھنگ کا ہنر جانتا تھا جس سے قرض اتارے، کیونکہ اس نے بچپن سے اب تک والدین کی متاع پر عیاشی کی تھی مگر والدین کے اس دارِ فانی سے کوچ کرتے ہی اس نے تمام جائیداد اور روپیہ پیسہ دوستوں میں اور جوئے میں اڑا دیا اب یک نہ شُد دو شُد والا معاملہ تھا ایک تو آئے روز قرض خواہ اس کے دروازے پہ آ دھمکتے دوسرا اس پر فاقوں کی نوبت آ چکی تھی اب شعیب شب بھر گھر سے غائب رہنے لگا تھا اور دن بھر پریشان رہتا، گھر والے بھی اُس پر نفرین بھیجتے کہ اُس نے ان کی ہنسی خوشی زندگی کو اجیرن بنا دیا اُس کی بیوی نے ایک کوٹھی پر کام ڈھونڈ لیا اور وہ دوائیوں کا خرچہ اور بچوں کی سکول کی فیس انہیں پیسوں سے جو کام کے نتیجے میں ملتے تھے ادا کرتی اور وہاں سے بچا ہوا کھانا لے کر آتی اور بچوں کا پیٹ پالتی، شعیب کی صحت بھی چنداں بہتر نہ رہی تھی اور وہ نحیف و نزار نظر آنے لگا تھا اور مدقوق سا دکھائی دیتا، اب قرض داروں نے شعیب کا جینا دو بھر کر دیا اور اس کیلئے ان سے بچ نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ بچی، آخر کار وہ ایک دن ایک حتمی فیصلے پر پہنچا اور اپنے چھوٹے بیٹے شہروز سے جو ابھی بمشکل چھ، سات سال کا تھا کہ بیٹا چلو آج بازار چلتے ہیں شہروز نے استفسار کیا کہ ابا جان آپ کے پاس تو ایک رتی بھی نہیں ہے پھر بازار کاہے کو چلیں؟ شعیب بولا کہ بیٹا ایک کام ڈھونڈنے جانا ہے دل کیا تمہیں ساتھ لے جاؤں کیونکہ تم چھوٹے ہو اور اس وجہ سے پیارے بھی بہت ہو تمہیں تو پتہ ہے نا کہ باقی بہن بھائیوں کی نسبت تم مجھے زیادہ عزیز ہو یہ سب باتیں سُن کر شعیب کی بیوی کا بھی دل پسیج  گیا اور اُس نے شہروز کو ہنسی خوشی تیار کر کے شعیب کے ساتھ بازار بھیج دیا، بازار میں جاتے ہی شعیب نے شہروز کو پہلے گرم گرم جلیبیاں کھلائیں، اُس کے بعد سموسے اور پھر جوس کا پلوایا، شہروز پھر لب گویا ہوا کہ بابا آج بڑے پیسے آ گئے خیر تو ہے؟؟ شعیب نے کہا کہ بیٹا کچھ دنوں سے آپ کیلئے بچا کے رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ابھی دونوں باپ بیٹا کے دوران یہی گفت و شنید جاری تھی کہ تین افراد آئے انہوں نے شعیب کو ایک طرف لے جا کر سرگوشی کے انداز میں کوئی بات کی اور ان کی بات سننے کے بعد شعیب، شہروز کے پاس آیا اور کہا کہ بیٹا ان لوگوں کے ساتھ چلو یہ بھی ہمارے گھر کی طرف جا رہے ہیں تمہیں گھر چھوڑتے جائیں گے مجھے ایک کام یاد آ گیا ہے میں وہ کر کے آ رہا ہوں شہروز نے دہائی دی کہ ابا جان انہیں تو ہم جانتے ہی نہیں پھر کیوں آپ مجھے ان اجنبیوں کے ساتھ بھیجنے پہ تُل گئے ہیں، شعیب نے کہا کہ بیٹا یہ میری پُرانی جان پہچان والے ہیں ،تُم گھبراؤ نہیں بلا جھجھک ان کے ساتھ براجمان ہو جاؤ، شعیب نے پھر عندیہ دیا کہ ابو ہم نے ان لوگوں کو نہ تو آپ کے ساتھ کبھی دیکھا اور نہ ہی اپنے گھر، اب کی بار شعیب نے کرخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ شہروز حد ہوتی ہے تمہیں ان لوگوں کی بابت میرے اوپر اعتبار نہیں ہے میں جو کہہ رہا ہوں کہ چلے جاؤ تو چلے جاؤ نا، شہروز نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو گیا اور وہ سب روانہ ہو گئے، شام کے وقت شعیب گھر آیا تو بہت خوش تھا اور فاتحانہ انداز میں بیوی سے بولا کہ آج سارا قرض اتار دیا ہے اللہ کا شکر ہے، بیوی نے کہا کہ یہ بتاؤ میرا شہروز کہاں ہے؟ شعیب نے اجنبی بنتے ہوئے اداکاری کرتے ہوئے پوچھا کہ شہروز ابھی تک گھر نہیں پہنچا؟ سب یک زبان ہو کر اور ششدر ہو کر بولے کہ "نہیں "شعیب نے بڑی بےبدلی سے کہا کہ "لگتا ہے وہ لوگ شہروز کو لے گئے "بیگم بولی کون لوگ؟ شعیب نے پھر بے فکری سے کہا کہ پتہ نہیں کون تھے؟ کل پیسے دیے تھے اور آج اسے لے بھی گئے یہی کہا کہ گھر چھوڑ دیں گے اسے میں نے کہا کہ چلو کرایہ بچ جائے گا ہمدرد لوگ ہیں اور با اعتبار بھی، یہ کہہ کر شعیب باہر کی طرف چل دیا مگر دور جا کر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، اسے خود سے کراہت ہو رہی تھی ،ادھر شعیب کی بیوی حقیقت جان چکی تھی پر سوائے کوسنے کے موقع پر کیا کہتی؟ مگر دن رات روتی بھی رہتی اور کام بھی کرتی، آخر کار یاداشت کھو بیٹھی اور گلی میں گزرنے والے ہر بندے سے پوچھتی شہروز کو کیوں نہیں لے آئے؟ شہروز کہاں ہے؟ ایک بار تو اس سے ملوا دو، ادھر شعیب کی بیٹے کی جدائی میں رو رو کر بینائی جاتی رہی اب وہ ہمہ وقت خود کو کوستا ہی رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں ...

یقین کی طاقت

حضرت واصف علی واصف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بڑی منزل کا مسافر کبھی چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا۔انسان کے قد  کے قد کا پتا اس کےجھگڑوں سے چلتا ہے۔     بقول اشفاق احمد صاحب جنہیں منزل کو پانا ہوتا ہے۔وہ کتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔اللہ کی رحمت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کو بڑا سوچنا چاہیئے۔یہ بڑا جرم ہے کہ انسان اپنی سوچ کو محدود کر لے۔دینے والی ذات اتنی بڑی اور لا محدود ہے تو اس سے توقعات کیوں نہ بڑی باندھی جائیں۔جب تک آپ کا خواب بڑا نہیں ہو گا آپ کی سوچ اور آپ کا فلسفہ بھی بڑا نہیں ہوسکتا۔اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں اور توانائیوں کو  چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی نذر  ہر گزنہ کریں۔                          آپ دوسروں کی پرواہ کریں گے تو دوسرے بھی آپ کی پرواہ کریں گے۔آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو آپ کو بھی عزت ملے گی۔آپ بانٹنا شروع کریں گے تو آپ کو ملنا شروع ہو جائے گا۔اور حتمی طور پر آپ کامیاب ہوں گے۔ بروس لپٹن کے بقول جب تم یقین کر لیتے ہو تو تمھارا ذہن رستہ بھی تلاش کر لیتا ہے۔جب آپ بڑا خواب دیکھتے ہیں پھر ...

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک...

قدرت کا گفٹ پیک

بلاشبہ قدرت بہت فیاض ہے اور اس فیاضی کا بھرپور مظاہرہ اس نے ہر انسان کو کسی نہ کسی ٹیلینٹ سے نواز کر کیا ہے مگر ہر ایک اس ٹیلنٹ کو استعمال نہیں کرتا. دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں. پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس کوئی ٹیلینٹ، ہنر یا صلاحیت ہو (جو سبھی کے پاس ہوتا ہے) لوگوں کی دوسری قسم میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر موجود ٹیلنٹ سے واقف ہوتے ہیں (ہم میں سے چند لوگ) تیسری قسم میں ان لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے جو اپنے ہنر، صلاحیت یا ٹییلینٹ کو استعمال بھی کرتے ہیں (یہ اہلیت بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے). طالب علمی کے زمانے میں ہر نوجوان یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اسے زندگی کی حرارت، جینے کی امنگ اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے.انہیں اپنی خاصیتوں کا بخوبی علم ہوتا ہے. وہ اپنے خوابوں پر یقین رکھتے ہیں مگر جب پیشہ منتخب کرنے کا مرحلہ سامنے آتا ہے تو وہ اپنی  صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر اپنی اسناد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں. تب ہم درحقیقت اپنی دلچسپی اور قدرت کی عطا کردہ تخصیص کو نظر انداز کرتے ہیں اور نتیجہ میں ہماری اپنی صلاحیتیں مٹنے لگتی ہیں.  اسٹیفن کنگ کے بقول "ٹیلنٹ کبھی بھی...