نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

قدرت کا گفٹ پیک

بلاشبہ قدرت بہت فیاض ہے اور اس فیاضی کا بھرپور مظاہرہ اس نے ہر انسان کو کسی نہ کسی ٹیلینٹ سے نواز کر کیا ہے مگر ہر ایک اس ٹیلنٹ کو استعمال نہیں کرتا.

دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں. پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس کوئی ٹیلینٹ، ہنر یا صلاحیت ہو (جو سبھی کے پاس ہوتا ہے) لوگوں کی دوسری قسم میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر موجود ٹیلنٹ سے واقف ہوتے ہیں (ہم میں سے چند لوگ) تیسری قسم میں ان لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے جو اپنے ہنر، صلاحیت یا ٹییلینٹ کو استعمال بھی کرتے ہیں (یہ اہلیت بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے). طالب علمی کے زمانے میں ہر نوجوان یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اسے زندگی کی حرارت، جینے کی امنگ اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے.انہیں اپنی خاصیتوں کا بخوبی علم ہوتا ہے. وہ اپنے خوابوں پر یقین رکھتے ہیں مگر جب پیشہ منتخب کرنے کا مرحلہ سامنے آتا ہے تو وہ اپنی  صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر اپنی اسناد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں. تب ہم درحقیقت اپنی دلچسپی اور قدرت کی عطا کردہ تخصیص کو نظر انداز کرتے ہیں اور نتیجہ میں ہماری اپنی صلاحیتیں مٹنے لگتی ہیں. 

اسٹیفن کنگ کے بقول "ٹیلنٹ کبھی بھی مستحکم نہیں ہوتا یہ ہمیشہ بڑھتا یا مرتا رہتا ہے".

کیا کبھی آپ نے بھی اپنے اندر پوشیدہ ٹیلینٹ کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ کبھی اپنی صلاحیتوں کو جاننے کی کوشش کی؟ جو لوگ ایسا نہیں کرتے درحقیقت وہ دوسروں کو یہ طے کرنے کا حق دے دیتے ہیں کہ آپ کس قابل ہیں  اور آپ سے کیا کام لیا جانا چاہئے. تب ہمارے والدین، دوست، شریک حیات، بہن بھائی اور آجر یہ طے کرتے ہیں کہ ہمیں کیا کام کرنا چاہئے. ہم کس زمرے میں آتے ہیں. بحیثیت انسان ہم اس کائنات کی سب سے شاندار مخلوق ہیں تو ہم میں صلاحیتیں کیوں کر عام ہوسکتی ہیں؟ ہر ایک زندگی میں کوئی نہ کوئی غیرمعمولی کام کرنے کی صلاحیت لے کر اس دنیا میں آیا ہے. اصل میں اپنی صلاحیتوں سے آگاہی یا ناواقفیت کو ایک چھوٹی سی مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ کبھی کبھار آپ کسی خاص موقعہ یا تہوار کے لئے گھر کی آرائش کے لئے کچھ سامان خریدتے ہیں. آپ استعمال کے بعد اس سامان کو اسٹور میں رکھ کر بھول بھال جاتے ہیں.سالوں بعد کبھی صفائی کے دوران وہ سب سامان اچانک آپ کے سامنے آجاتا ہے اور آپ چونک جاتے ہیں "ارے یہ سب تو یہاں رکھا ہوا تھا". ثابت ہوا کہ جو چیزیں استعمال میں نہیں رہتیں وہ آپ کی یاد داشت اور علم میں بھی نہیں رہتیں. دیکھنا ہوگا کہ قدرت نے  ہمیں جو صلاحیت تحفے میں دی ہے ہم کیسے اسے تلاش کریں. 

گوتم بدھ کا قول ہے "یہاں ہر شخص نوازہ گیا ہے مگر ہم میں سے کچھ نے اپنی گٹھڑی کو کبھی کھول کر نہیں دیکھا". کیا ہم نے قدرت کے دئیے گفٹ پیک کو کبھی کھول کر دیکھا، آپ کی خاص صلاحیت کچھ بھی ہوسکتی ہے. اسے اپنی ڈگریوں اور سرٹیفیکیٹس میں ہرگز تلاش نہ کریں کیوں کہ قدرت آپ کو ٹیلینٹ اور صلاحیت دستاویزی ثبوت کے بغیر عطا کرتی ہے. آپ اپنی مہارت میں اپنی صلاحیت کو باآسانی ڈھونڈھ سکتے ہیں. اپنے مشاغل میں اس کا پتہ لگا سکتے ہیں. آپ کی صلاحیت بولنے، لکھنے، گانے، پینٹنگ، کسی خاص اسپورٹس، ملازم یا کسٹمر ہینڈلنگ میں ہوسکتی ہے. یہ گھر سجانے یا کھانا پکانے میں بھی ہوسکتی ہے غرض آپ کی یہ خاص صلاحیت کچھ بھی ہوسکتی ہے. کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ خود ہم اپنی صلاحیتوں کو بہت معمولی خیال کرکے نظرانداز کرڈالتے ہیں. اکثر خواتین گھر میں بہت اچھا کھانا پکاتی ہیں. انہیں کھانا پکانا پسند بھی ہوتا ہے مگر جب اسے ان کی خاص صلاحیت اور ٹیلینٹ قرار دیا جائے تو دلی طور پر وہ اسے باقائدہ فن، ہنر یا ٹیلینٹ ماننے پر مشکل سے آمادہ ہوپاتی ہیں  جواب آتا ہے "لو بھلا یہ بھی کوئی ہنر ہوا؟ یہ تو میرا  باقائدہ روز کا کام ہے" . شاز و نادر ہی ایسا ہوگا کہ کسی خاتون سے اس کا ہنر پوچھا جائے تو وہ فخر سے جواب دے "میں کھانے بہت اچھے پکاسکتی ہوں" . اپنی صلاحیتوں سے آشنا لوگ انہیں ایک سمت دیتے ہیں کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا ٹیلینٹ اسے کہاں تک لے جاسکتا ہے. ایک دانشور نے کمال کی بات کی ہے کہ "عام سی صلاحیت اور غیرمعمولی استقامت کے ساتھ آپ ہر چیز حاصل کرسکتے ہیں".

جو نوجوان تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی اپنی صلاحیتوں سے نا آشنا ہیں وہ اپنا وقت بلکہ زندگی گنوا رہے ہیں. اپنی صلاحیتوں کو جانے بغیر آپ کاروبار کریں یا ملازمت درحقیقت آپ خود کو بیوقوف بنارہے ہوتے ہیں. آپ کی زندگی کا ایک تہائی عرصہ گذر چکا اور اب تک آپ یہ نہیں جان پائے کہ آپ اس دنیا میں واقعی کرنا کیا چاہتے ہیں؟ خود پر تجربات کریں نہ ذیادہ انتظار میں وقت برباد کریں.اپنے اندر جھانکیں اور دل کی پیروی کریں. بعد میں درکار مہارتیں سیکھ کر ٹیلینٹ میں مزید نکھار پیدا کیا جاسکتا ہے. "درست وقت" اور "بہتر موقعہ" کے انتظار میں اپنی صلاحیتوں کے آگے بند نہ باندھیں. ایوان بینن کے بقول "تعریف کا مستحق وہ نہیں جس کے پاس صلاحیت ہو بلکہ وہ ہے جو صلاحیت کا استعمال کرتا ہے". آپ کا ٹیلینٹ تبھی کام کرے گا جب خود آپ کام کرں گے.اصل خوشی اپنی صلاحیت اپنی قابلیت کے استعمال سے ملتی ہے نہ کہ اس کے بارے میں خواب دیکھنے سے.اپنی صلاحیتوب کا پتہ لگائیں. انہیں استعمال کریں.پہلا قدم اٹھائیں اور دنیا کے طول و عرض پر چھاجائیں۔.

تحریر: شاہدحبیب ایڈوکیٹ

کراچی )پاکستان)

رابطہ: 923332472648

تبصرے

  1. Absolutely you right all the human beings has special telele jst we have to find ot

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہ قول غالب

    دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

    میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

    ہم بنیادی طور پر خود سے ناشناس لوگ ہیں۔ اور نہلے پے دہلا مستقل مزاجی ہمارے پیدا ہوتے ہی راستہ بدل لیتی ہے۔ یہ وہ شخصی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے اکثریت زندگی میں ناکام رہتی ہے۔
    آپ نے مسئلے کی نہ صرف نشان دہی کی ہے بلکہ اس کا حل بھی بتا دیا ہے "عام سی صلاحیت اور غیرمعمولی استقامت".

    مختصر، جامع اور پُر اثر، جو اپنے آپ کو دلانا چاہتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. . ثابت ہوا کہ جو چیزیں استعمال میں نہیں رہتیں وہ آپ کی یاد داشت اور علم میں بھی نہیں رہتیں. دیکھنا ہوگا کہ قدرت نے ہمیں جو صلاحیت تحفے میں دی ہے ہم کیسے اسے تلاش کریں.

    گوتم بدھ کا قول ہے "یہاں ہر شخص نوازہ گیا ہے مگر ہم میں سے کچھ نے اپنی گٹھڑی کو کبھی کھول کر نہیں دیکھا". کیا ہم نے قدرت کے دئیے گفٹ پیک کو کبھی کھول کر دیکھا. Very nice

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Sharing of any types of Links and sectarian , communal, blasphemous, hateful comments is strictly prohibited.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں

کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی

 کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں  بہت باکمال  تھے ہم  بھی ہماری  کھوج  میں رہتی تھیں تتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کے سن و سال تھے  ہم بھی زندگی کی گود میں سر رکھ کے سو گئے آخر  تمھارے عشق میں کتنے نڈھال تھے ہم بھی ضرورتوں   نے  ہمارا   ضمیر    چاٹ     لیا وگرنہ   قائل   رزق   حلال  تھے  ہم  بھی ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی پروین شاکر          हिंदी अनुवाद किसी का प्यार, किसी का विचार, हम भी अतीत में, हम भी बहुत समृद्ध थे तितलियाँ अक्सर हमारी तलाश में रहती थीं कि हम अपने शहर के वर्ष थे मैं अपनी गोद में सिर रखकर सो गया हम आपके प्यार में कितने कमजोर थे जरूरतें हमारे विवेक को चाट गई अन्यथा, जीविका के लिए आश्वस्त करना हमारे लिए भी उचित था हम एक ही धुन में चिंतन करते रहे कि हम जीवन में कभी भी अमर थे परवीन शा कि र

کامیابی کی پہیلی

Easy way To Success زمانہ طالب علمی میں کھبی اساتذہ تو کبھی ہم جماعت اکثر دلچسپ سوالات  اور پہیلیاں پوچھا کرتے تھے جن سے زندگی بھر کے لیے عقل و دانش سے بھرپور سبق ملتے تھے. اسکول کے زمانے میں اسی طرح کا ایک سوال ایک استاد نے ہم سے کیا تھا جب انہوں نے چاک سے بلیک بورڈ پر ایک لیکر کھینچی (تب وائٹ بورڈ اور مارکر کا رواج نہ تھا) اور پھر پوری کلاس کو چیلینج کیا کہ کون اس لکیر کو چھوئے یا مٹائے بغیر چھوٹا کر کے دکھا سکتا ہے؟ لکیر کو آگے یا پیچھے سے مٹائے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا مگر ٹیچر کی طرف سے تو اسے چھونے کی بھی اجازت نہ تھی.ہم سب شش و پنج میں پڑے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے  رہے مگر کسی کے پاس اس معمہ کی سلجھن نہ تھی لہزہ تھوڑی دیر بعد ہی ہار مان گئے. تب ہمارے لائق استاد نے بلیک بورڈ پر اپنی کھینچی ہوئی لکیر سے ذرا نیچے ایک دوسری لکیر کھینچی جو پہلی لکیر سے کافی زیادہ لمبی تھی اور پھر پوری کلاس کو دیکھتے ہوئے  سوالیہ انداز میں جواب دیا "اب ہوگئ پہلی لکیر چھوٹی؟" تمام طالب علموں نے حیرت سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا. اس سوال اور اس کے جواب میں ہم سب کی زندگیوں کو بدل دینے