وقت جب ایک بار گذر جائے تو پھرکبھی نہیں لوٹتا اس لئے ہمیں بلا کسی تاخیر وقت کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے ۔ یہ انتخاب بہرحال ہمیشہ ہمارے اپنے اختیار میں ہوتا کہ ہم اپنا وقت دانش مندی سے استعمال کریں یا پھر اسے ضائع کردیں۔ وقت اس دنیا میں ہر انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے لہزہ ہمیں ایک اجنبی کی طرح خود کو مخاطب کرکے اپنے آپ سے ہمیشہ یہ سوال کرتے رہنا چاہئے کہ کیوں جناب کیا آپ اپنے وقت کی قدر کرتے ہیں؟ زندگی میں سبھی کے کچھ نہ کچھ خواب ہوتے ہیں اور خواب تعبیر کیے لئے وقت اور کوشش کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ابتداء میں ہم اپنے تئیں یہ فرض کر لیتے ہیں کہ چیزوں کو کرنے کے لئے ہمارے پاس کافی وقت ہے تو ذیادہ جلدی کی ضرورت نہیں مگر بعد میں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم زرہ اور پہلے ایسا کرلیتے تو بہتر ہوسکتا تھا۔ نامعلوم کیوں اکثر لوگ کافی وقت گنوانے کے بعد وقت کی اہمیت کو سمجھ پاتے ہیں۔
وقت کی قدر کے بارے میں ایم اسکاٹ پیک نے کیا زبردست بات کہی کہ “جب تک آپ اپنی قدر نہیں کرتے ، آپ اپنے وقت کی قدر نہیں کریں گے۔ جب تک آپ اپنے وقت کی قدر نہیں کرتے ، آپ اس کے ساتھ کچھ نہیں کریں گے"۔ اور عہد حاضر کے چند کامیاب ترین انسانوں میں ایک اسٹیو جابس کا کہنا ہے کہ " یہ واقعی واضح ہے کہ ہمارے پاس سب سے قیمتی وسائل وقت ہے۔ " چیسٹر فیلڈ کارل نے بڑا دلچسپ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ "میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ منٹ کا خیال رکھیں اور میری تجویز پر عمل کرکے آپ درحقیقت گھنٹوں اپنا خیال رکھیں گے۔" سارہ پیڈیسن نے وقت کے درست استعمال کی وضاحت کرتے ہوئے بڑے کمال کی بات کی “اس بات کا ادراک کریں کہ لمحہ موجود میں آپ اپنا اگلا لمحہ تشکیل دے رہے ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔ "
ہم اپنا وقت کس طرح گزارتے ہیں؟ خود کو کیوں نہ چیک کیا جائے کہ ہم اپنا دن کیسے گزارتے ہیں؟ کیا آپ صرف اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں اسے گنوا رہے ہیں؟ کیا آپ زندگی میں اپنے متعین مقاصد کے حصول کے قریب ہو رہے ہیں؟ اکثر ہم بہت زیادہ سوچتے ہیں لیکن کبھی بھی کرنے کے لئے وقت تلاش نہیں کرتے۔ بعض اوقات ہم مثبت سے زیادہ منفی پہلو پر توجہ دیتے ہیں۔ منفی سوچ آپ کو اسی جگہ پر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اپنی توجہ کو "جو کیا نہیں کیا جاسکتا" سے "" کیا کیا جا سکتا ہے "کی طرف منتقل کریں۔ اپنا وقت زندگی میں آگے بڑھنے کی عملی کوششوں میں صرف کریں۔
آئیے ہم اپنے وقت کو دانشمندی سے گزارنے کے بارے میں کچھ اقتباسات دیکھتے ہیں۔ "اگر آپ کسی چیز کے بارے میں سوچنے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں تو آپ اسے کبھی پورا نہیں کریں گے۔" عام لوگ محض وقت گزارنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ عظیم لوگ اس کے استعمال کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ولیم پین نے کمال کی بات کہی "ہمیں درکار وسائل میں وقت وہی ہوتا ہے جسے ہم زیادہ سے زیادہ چاہتے ہیں ، لیکن جسے ہم بدترین طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔"
ہر شخص کے پاس دستیاب مجموعی وقت ہی کو "زندگی" کہا جاتا ہے جو صرف ایک بار ہی ملتی ہے دوسرے لفظوں میں زندگی ہر انسان کو ملا ہوا پہلا اور آخری موقعہ ہے. اب یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نقصان. زندگی کو کامیاب بناتے ہیں یا ناکام.
وقت کے درست، بھرپور اور بہترین استعمال کے حوالے سے ٹائم مینجمینٹ کے فلسفہ پر مختلف ماہرین نے طرح طرح کے نظریات پیش کئے ہیں. مجموعی طور جائزہ لیا جائے تو اسے ہم دو مختلف تناظر میں دیکھ سکتے ہیں. مغرب میں "کم وقت میں ذیادہ کام" کو ٹائم مینجمنٹ سمجھا جاتا ہے جب کہ مشرق میں ٹائم مینجمنٹ سے مراد وہ وقت ہے جو آپ کاموں سے فارغ ہو کر بچا پاتے ہیں گویا جتنا ذیادہ وقت آپ بچا پائیں گے ٹائم مینجمنٹ کے حوالے سے اتنے ذیادہ بہتر ہوں گے. اس کا ایک بہترین طریقہ صبح جلد سے جلد بیداری ہے. جلد بیدار ہوکر آپ جلد از جلد کام کا آغاز کرسکتے ہیں اور اس طرح آپ کے ہاتھ میں وقت بھی کافی ہوگا مگر اس کیلئے پہلا قدم رات کو جلد سونے کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے. حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ہم کبھی وقت کو مینیج نہیں کرسکتے. ہم دن میں ایک گھنٹہ، گھنٹہ میں ایک منٹ اور منٹ میں ایک سیکنڈ کا نہ اضافہ کرسکتے ہیں نہ کمی. ہم کیوں نہ وہ کریں جو ہم کرسکتے ہیں. یعنی سیلف مینجمنٹ. ہم بس اپنے معمولات کو تبدیل کرسکتے ہیں.
موجودہ دور میں اپنے وقت کا بہترین استعمال اپنا "اسکرین ٹائم" گھٹا کر بھی کرسکتے ہیں. یعنی اگر ہم ٹی وی، لیپ ٹاپ اور موبائل فون پر اپنی توجہ کم کر دیں تو یقنی طور پر زندگی میں اپنے اہداف کے حصول کے لئے ذیادہ کوشش کرسکتے ہیں. اس کے لئے ہم اگر صرف ٹی وی ٹاک شوز دیکھنا بند کردیں خود کو یہ یقین دلادیں کہ موبائل اور لیپ ٹاپ صرف کمیونیکیشن اور انفارمیشن کی حد تک استعمال کرنے کی چیز ہیں جب کہ انٹرٹینمینٹ صرف کھیل کے میدان میں ممکن ہے تو یقین کیجئے آپ اپنا وقت بلکہ اپنی زندگی بہت حد تک عین فطری اصولوں کے مطابق گذار سکتے ہیں.
مولانا فیروز حیدر عابدی صاحب کو ایک بار کہتے سنا کہ "قانون شریعت میں مغفرت ہے مگر قانون فطرت میں رحم نہیں. قانون فطرت ہے کہ کوئی فرد یا قوم غافل ہے تو کل وقت اس سے انتقام لے گا اس لئے کہ زمین سستی کو گوارہ نہیں کرتی. سست روی سے پروان چڑھنے والے تمام پودے سوکھ جاتے ہیں. وہ درخت سوکھ جاتے ہیں جو مفید مطلب نہیں ہوتے. وہی جانور باقی رہیں گے جو مفید مطلب ہیں. جو کام کے نہیں وہ ڈائنو سارز کی طرح مٹ جائیں گے. اس دنیا میں وہی جیئے گا جو کام کرے گا. ناکارہ لوگوں کے سروں پر تاج نہیں رکھے جاتے. کانپتے قدموں چلنے والے کبھی تخت پر نہیں بٹھائے جاتے." مارکیٹیں ان کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں جو گیارہ بجے دوکان پر بیٹھے اونگھ رہے ہوتے ہیں. یہ دنیا بڑی خطرناک ہے. یہاں غفلت کی سزا موت ہے.
اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ اپنا وقت ضائع کررہے ہیں تو جناب آپ کا خیال بالکل غلط ہے۔ دراصل آپ وقت کو نہیں بلکہ وقت دن بدن آپ کو ضائع کررہا ہے۔ خود کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں.
تحریر: شاہد حبیب ایڈوکیٹ
کراچی. پاکستان
رابطہ +92332472648
Nice
جواب دیںحذف کریں
جواب دیںحذف کریںبہت خوبصورت ذہن کو روشن کردینے والی تحریر بامقصد زندگی گزارنے کے لیے بہترین تقلید _____
جواب دیںحذف کریںبہت خوبصورت ذہن کو روشن کردینے والی تحریر بامقصد زندگی گزارنے کے لیے بہترین تقلید _____