نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

سب سے قیمتی اثاثہ

 


وقت جب ایک بار گذر جائے تو پھرکبھی نہیں لوٹتا اس لئے ہمیں بلا کسی تاخیر وقت کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے ۔ یہ انتخاب بہرحال ہمیشہ ہمارے اپنے اختیار میں ہوتا کہ ہم اپنا وقت دانش مندی سے استعمال کریں یا پھر اسے ضائع کردیں۔ وقت اس دنیا میں ہر انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے لہزہ ہمیں ایک اجنبی کی طرح خود کو مخاطب کرکے اپنے آپ سے ہمیشہ  یہ سوال کرتے رہنا چاہئے کہ کیوں جناب کیا آپ اپنے وقت کی قدر کرتے ہیں؟ زندگی میں سبھی کے کچھ نہ کچھ خواب ہوتے ہیں اور خواب تعبیر کیے لئے وقت اور کوشش کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ابتداء میں ہم اپنے تئیں یہ فرض کر لیتے ہیں کہ چیزوں کو کرنے کے لئے ہمارے پاس کافی وقت ہے تو ذیادہ جلدی کی ضرورت نہیں مگر  بعد میں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم زرہ اور پہلے ایسا کرلیتے تو بہتر ہوسکتا تھا۔ نامعلوم کیوں اکثر لوگ کافی وقت گنوانے کے بعد وقت کی اہمیت کو سمجھ پاتے ہیں۔

 وقت کی قدر کے بارے میں ایم اسکاٹ پیک نے کیا زبردست بات کہی کہ “جب تک آپ اپنی قدر نہیں کرتے ، آپ اپنے وقت کی قدر نہیں کریں گے۔ جب تک آپ اپنے وقت کی قدر نہیں کرتے ، آپ اس کے ساتھ کچھ نہیں کریں گے"۔ اور عہد حاضر کے چند کامیاب ترین انسانوں میں ایک اسٹیو جابس کا کہنا ہے کہ " یہ واقعی واضح ہے کہ ہمارے پاس سب سے قیمتی وسائل وقت ہے۔ "  چیسٹر فیلڈ کارل نے بڑا دلچسپ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ "میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ منٹ کا خیال رکھیں اور میری تجویز پر عمل کرکے آپ درحقیقت گھنٹوں اپنا خیال رکھیں گے۔" سارہ پیڈیسن نے وقت کے درست استعمال کی وضاحت کرتے ہوئے بڑے کمال کی بات کی  “اس بات کا ادراک کریں کہ لمحہ موجود میں آپ اپنا اگلا لمحہ تشکیل دے رہے ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔ "

ہم اپنا وقت کس طرح گزارتے ہیں؟ خود کو کیوں نہ چیک کیا جائے کہ ہم اپنا دن کیسے گزارتے ہیں؟ کیا آپ صرف اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں اسے گنوا رہے ہیں؟ کیا آپ زندگی میں اپنے متعین  مقاصد کے حصول کے قریب ہو رہے ہیں؟ اکثر ہم بہت زیادہ سوچتے ہیں لیکن کبھی بھی کرنے کے لئے وقت تلاش نہیں کرتے۔ بعض اوقات ہم مثبت سے زیادہ منفی پہلو پر توجہ دیتے ہیں۔ منفی سوچ آپ کو اسی جگہ پر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اپنی توجہ کو "جو کیا نہیں کیا جاسکتا" سے "" کیا کیا جا سکتا ہے "کی طرف منتقل کریں۔ اپنا وقت زندگی میں آگے بڑھنے کی عملی کوششوں میں صرف کریں۔

 آئیے ہم اپنے وقت کو دانشمندی سے گزارنے کے بارے میں کچھ اقتباسات دیکھتے ہیں۔ "اگر آپ کسی چیز کے بارے میں سوچنے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں تو  آپ اسے کبھی پورا نہیں کریں گے۔" عام لوگ محض وقت گزارنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ عظیم لوگ اس کے استعمال کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ولیم پین نے کمال کی بات کہی "ہمیں درکار وسائل میں وقت وہی ہوتا ہے جسے ہم زیادہ سے زیادہ چاہتے ہیں ، لیکن جسے ہم بدترین طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔"

ہر شخص کے پاس دستیاب مجموعی وقت ہی کو "زندگی" کہا جاتا ہے جو صرف ایک بار ہی ملتی ہے دوسرے لفظوں میں زندگی ہر انسان کو ملا ہوا پہلا اور آخری موقعہ ہے. اب یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نقصان. زندگی کو کامیاب بناتے ہیں یا ناکام.

وقت کے درست، بھرپور اور بہترین استعمال کے حوالے سے ٹائم مینجمینٹ کے فلسفہ پر مختلف ماہرین نے طرح طرح کے نظریات پیش کئے ہیں. مجموعی  طور جائزہ لیا جائے تو اسے ہم دو مختلف تناظر میں دیکھ سکتے ہیں. مغرب میں "کم وقت میں ذیادہ کام" کو ٹائم مینجمنٹ سمجھا جاتا ہے جب کہ مشرق میں ٹائم مینجمنٹ سے مراد وہ وقت ہے جو آپ کاموں سے فارغ ہو کر بچا پاتے ہیں گویا جتنا ذیادہ وقت آپ بچا پائیں گے ٹائم مینجمنٹ کے حوالے سے اتنے ذیادہ بہتر ہوں گے. اس کا ایک بہترین طریقہ صبح جلد سے جلد بیداری ہے. جلد بیدار ہوکر آپ جلد از جلد  کام کا آغاز کرسکتے ہیں اور اس طرح آپ کے ہاتھ میں وقت بھی کافی ہوگا مگر اس کیلئے پہلا قدم رات کو جلد سونے کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے. حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ہم کبھی وقت کو مینیج نہیں کرسکتے. ہم دن میں ایک گھنٹہ، گھنٹہ میں ایک منٹ اور منٹ میں ایک سیکنڈ کا نہ اضافہ کرسکتے ہیں نہ کمی. ہم کیوں نہ وہ کریں جو ہم کرسکتے ہیں. یعنی سیلف مینجمنٹ. ہم بس اپنے معمولات کو تبدیل کرسکتے ہیں.

موجودہ دور میں اپنے وقت کا بہترین استعمال اپنا "اسکرین ٹائم" گھٹا کر بھی کرسکتے ہیں. یعنی اگر ہم ٹی وی، لیپ ٹاپ  اور موبائل فون پر اپنی توجہ کم کر دیں تو یقنی طور پر زندگی میں اپنے اہداف کے حصول کے لئے ذیادہ کوشش کرسکتے ہیں. اس کے لئے ہم اگر صرف ٹی وی ٹاک شوز دیکھنا بند کردیں خود کو یہ یقین دلادیں کہ موبائل اور لیپ ٹاپ صرف کمیونیکیشن اور انفارمیشن کی حد تک استعمال کرنے کی چیز ہیں جب کہ انٹرٹینمینٹ صرف کھیل کے میدان میں ممکن ہے تو یقین کیجئے آپ اپنا وقت بلکہ اپنی زندگی بہت حد تک عین فطری اصولوں کے مطابق گذار سکتے ہیں.

مولانا فیروز حیدر عابدی صاحب کو ایک بار کہتے سنا کہ "قانون شریعت میں مغفرت ہے مگر قانون فطرت میں رحم نہیں. قانون فطرت ہے کہ کوئی فرد یا قوم غافل ہے تو کل وقت اس سے انتقام لے گا اس لئے کہ زمین سستی کو گوارہ نہیں کرتی. سست روی سے پروان چڑھنے والے تمام پودے سوکھ جاتے ہیں. وہ درخت سوکھ جاتے ہیں جو مفید مطلب نہیں ہوتے. وہی جانور باقی رہیں گے جو مفید مطلب ہیں. جو کام کے نہیں وہ ڈائنو سارز کی طرح مٹ جائیں گے. اس دنیا میں وہی جیئے گا جو کام کرے گا. ناکارہ لوگوں کے سروں پر تاج نہیں رکھے جاتے. کانپتے قدموں چلنے والے کبھی تخت پر نہیں بٹھائے جاتے." مارکیٹیں ان کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں جو گیارہ بجے دوکان پر بیٹھے اونگھ رہے ہوتے ہیں. یہ دنیا بڑی خطرناک ہے. یہاں غفلت کی سزا موت ہے.

اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ اپنا وقت ضائع کررہے ہیں تو جناب  آپ کا خیال بالکل غلط ہے۔ دراصل آپ وقت کو نہیں بلکہ وقت دن بدن آپ کو ضائع کررہا ہے۔ خود کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں.

تحریر: شاہد حبیب ایڈوکیٹ

کراچی. پاکستان

رابطہ +92332472648

تبصرے


  1. بہت خوبصورت ذہن کو روشن کردینے والی تحریر بامقصد زندگی گزارنے کے لیے بہترین تقلید _____

    جواب دیںحذف کریں

  2. بہت خوبصورت ذہن کو روشن کردینے والی تحریر بامقصد زندگی گزارنے کے لیے بہترین تقلید _____

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Sharing of any types of Links and sectarian , communal, blasphemous, hateful comments is strictly prohibited.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں

کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی

 کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں  بہت باکمال  تھے ہم  بھی ہماری  کھوج  میں رہتی تھیں تتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کے سن و سال تھے  ہم بھی زندگی کی گود میں سر رکھ کے سو گئے آخر  تمھارے عشق میں کتنے نڈھال تھے ہم بھی ضرورتوں   نے  ہمارا   ضمیر    چاٹ     لیا وگرنہ   قائل   رزق   حلال  تھے  ہم  بھی ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی پروین شاکر          हिंदी अनुवाद किसी का प्यार, किसी का विचार, हम भी अतीत में, हम भी बहुत समृद्ध थे तितलियाँ अक्सर हमारी तलाश में रहती थीं कि हम अपने शहर के वर्ष थे मैं अपनी गोद में सिर रखकर सो गया हम आपके प्यार में कितने कमजोर थे जरूरतें हमारे विवेक को चाट गई अन्यथा, जीविका के लिए आश्वस्त करना हमारे लिए भी उचित था हम एक ही धुन में चिंतन करते रहे कि हम जीवन में कभी भी अमर थे परवीन शा कि र

اساتذہ نشانے پر کیوں؟؟؟؟DISCRIMINATORY PROTOCOL

 عزت ماب جناب عمران احمد خان نیازی صاحب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان. . عزت ماب جناب عثمان بوزدار صاحب وزیراعلی پنجاب. السلام و علیکم, کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی ایک خاتون افسر جن کا نام اب راقم کی یاد داشت میں نہیں اور پشاورشہر کی سارہ تواب نامی خاتون ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی اپنے شیرخوار و نونہال بچوں کو گود میں بٹھا کر اپنے دفاتر میں محکمانہ اور پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جنہیں عوامی سطح پر بہت سراہا گیا. متعلقہ محکموں اور حکومتوں کی جانب سے بھی ان تصاویر پر کسی منفی ردعمل کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا جس سے اندازہ ہوا کہ سرکار کو ملازمت پیشہ ماؤں اور ان کے بچوں کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔. اب آئیے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب.  آج سوشل میڈیا پر ضلع میانوالی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری اہجوکیشن کے دفتر سے مورخہ 26/9/2020 کو جاری ہونے والا ایک حکم نامہ معطلی کا عکس بھی وائرل ہوا جس پر مجاز افسر مسمی محمد خلیل پراچہ صاحب کے دستخط بحروف انگریزی بھی ثبت ہیں جس میں عشرت ستار نامی ایک خاتون ٹیچر کو معطل کرتے ہوئے متعلقہ