نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک...

مفت کی خوشیاں

.
Happiness that cost Nothing
یہ ایک سچی کہانی ہے۔
بارہ جنوری2007 کی صبح ایک شخص ایک وائلن ہاتھ میں تھامے نیویارک کے ایک میٹرو اسٹیشن پہنچا. ایک خالی بینچ  پر بیٹھ کر اس نے وائلن بجانا شروع کر دیا. وہ ایک جمعہ کی سرد اور معمول کے مطابق ہنگامہ خیز صبح تھی. ہزاروں لوگ اس وقت اس میٹرو اسٹیشن پر تیزی سے گذر رہے تھے. وہ شخص مسلسل ایک گھنٹہ ایک کے بعد ایک مختلف دھن بجاتا رہا. اس نے کل چھہ سات مختلف دھنیں بجائیں مگر گذرتے لوگوں میں سے کسی نے اس کا نوٹس تک نہیں لیا. لوگوں میں سے زہادہ تر کام پر جانے کی جلدی میں تھے. ایک بوڑھا شخص اس وائلن نواز کے پاس اس کا میوزک سننے کو رکا مگر پھر چند منٹ بعد ہی اس کی ایک دھن بھی پوری سنے بغیر آگے بڑھ گیا.
کافی دیر وائلن بجانے کے بعد اسے پہلی ٹپ ملی. ٹپ دینے والی عورت اس کا میوزک سننے کے لیے رکے بغیر زمین پر رکھے اس کے ہیٹ میں پیسے ڈالتی ہوئی تیزی سے آگے بڑھ گئ. کچھ دیر بعد اپنی ماں کا ہاتھ تھامے گذرتا ہوا اہک تین سالہ بچہ اس کا سنگیت سننے کو رکا مگر اس کی ماں خاصی عجلت میں تھی اس نے اس طرح رک کر وقت ضایع کرنے پر بچے کو ٹوکا اور اسے دھکیلتی ہوئی دوبارہ چل پڑی.بچہ موسیقی سے متاثر نظر آرہا تھا مگر اس کی ماں کے پاس وقت بالکل نہیں تھا. وہ بچہ بار بار پلٹ کر وائلن بجانے والے کو دیکھتا رہا اور بالآخر چلاگیا. ایسا ہی معاملہ چند اور بچوں کے ساتھ بھی دیکھنے میں آیا مگر ان کے والدین بھی انہیں جلدی چلنے پر مجبور کرتے ہوئے بغیر رکے ساتھ لے گئے.
ایک گھنٹہ کے دوران صرف سات افراد محض چند منٹوں کے لیے اس وائلن بجانے والے کا سنگیت سننے کو رکے. پندرہ کے قریب لوگ اس کے ہیٹ میں ٹپ ڈالتے گذر گئے. اس صبح اسے کل تیس ڈالر ملے.
ایک گھنٹہ پورا ہوتے ہی اس نے وائلن بجانا بند کردیا. میٹرو اسٹیشن پر خاموشی چھا گئ مگر کسی نے اس خاموشی کو بھی نوٹس نہ کیا. کسی نے موسیقار کو تالیاں بجا کر داد دی نہ اس کی بجائی کی ایک بھی دھن ٹھیک طرح سنی. وہاں کوئ اسے جانتا تھا نہ جاننا چاہتا تھا مگر وہ وائلن نواز کوئی اور نہیں "جوشوا بیل" تھا.
وہ دنیا کے چند بہترین موسیقاروں میں سے ایک تھا. اس نے اس صبح موسیقی کی تاریخ میں چند سب سے مہنگی ترین فروخت ہونے والی دھنیں بجائی تھیں جن کی قیمت 3.5 ملین ڈالر تھی. میٹرو اسٹیشن پر اس دن اس لائیو شو سے صرف دو دن پہلے بوسٹن میں اس کا ایک کامیاب شو ہوا تھا جس میں ایک نشست کا ٹکٹ سو ڈالر کے عیوض فروخت ہوا تھا. میٹرو اسٹیشن پر واشنگٹن پوسٹ نے جوشوا بیل کے ساتھ یہ ایوینٹ منعقد کیا تھا.
یہ لوگوں کے ذوق, رجحانات اور ترجیحات کو جانچنے پرکھنے کے لیے کیا گیا ایک Social experiment تھا.
یہ شو عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کے درمیان ایک عام سی جگہ پر غیر عمومی اوقات میں ایک گھنٹہ کے دورانیہ پر منعقد کیا گیا تھا.
اس تجربہ کے نتائج انتہائی حیران کن تھے جنہوں نے ہر ایک کو سوچنے پر مجبور کردیا.
ہم کیسے چیزوں کو دیکھتے اور ان کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں؟
ہم کیسے, کب اور کیوں حسن و جمال اور کمال فن کا اعتراف کرتے ہیں؟
ہم تب ہی چیزوں کو توجہ کے قابل سمجھتے ہیں جب ہم سے کرنسی میں ان کی قیمت وصول کی جارہی ہو۔.
اس صبح میٹرو اسٹیشن پر موجود لوگوں میں سے اکثر  جوشوا بیل کا لائیو شو سننے کے لیے قیمت ادا کرنے سے کبھی انکار نہ کرتے مگر اس وقت وہ اس قدر مصروف تھے کہ انہوں نے اپنے درمیان بلاقیمت پرفارم کرتے جوشوا بیل اس کی خوب صورت دھنوں کو توجہ کے قابل بھی نہ سمجھا۔
یہ بڑی تعجب خیز بات ہے. ہم روزمرہ زندگی کی مصروفیت میں اس طرح کی بے شمار چیزوں سے لطف اندوز ہونا فراموش کرجاتے ہیں. ہم سبھی کی زندگیوں میں روزانہ ہی ایسی کئ خوب صورت چیزیں ہمارے آس پاس موجود ہوتی ہیں مگر کیا ہم لوگ اس خوب صورتی کو سراہنے اس سے محظوظ ہونے کے لیے ٹہرنا پسند کرتے ہیں؟
کیا ہم اس طرح کسی موسیقار یا اس کی خوب صورت دھن سے لطف اندوز ہو کر اسے اس کے کمال فن کی داد دینے کے لیے تالیاں بجاتے ہیں؟ 
ہم میں سے کتنے اپنی روزمرہ کی مصروفیات کو (کچھ دیر کے لیے ہی صحیح) ترک کر کے اپنے اردگرد ماحول اور لوگوں پر توجہ دیتے ہیں؟
اس دن ہزاروں لوگ اپنے درمیان موجود عظیم موسیقار جوشوا بیل کے لائیو شو سے مفت لطف اندوز ہونے کا موقعہ گنوا بیٹھے. بالکل اسی طرح ہم بھی زندگی کی بہت سی چھوٹی چھوٹی خوب صورتیوں سے لطف اندوز ہونے کے بے شمار مواقع "آگے ہی آگے" بڑھنے کی دوڑ کا حصہ ہونے کے سبب گنوارہے ہوتے ہیں اور اس آگے بڑھنے کی کوشش میں زندگی کی اصل خوب صورتی کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے.
تحریر: شاہدحبیب ایڈوکیٹ
کراچی. پاکستان

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں ...

یقین کی طاقت

حضرت واصف علی واصف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بڑی منزل کا مسافر کبھی چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا۔انسان کے قد  کے قد کا پتا اس کےجھگڑوں سے چلتا ہے۔     بقول اشفاق احمد صاحب جنہیں منزل کو پانا ہوتا ہے۔وہ کتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔اللہ کی رحمت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کو بڑا سوچنا چاہیئے۔یہ بڑا جرم ہے کہ انسان اپنی سوچ کو محدود کر لے۔دینے والی ذات اتنی بڑی اور لا محدود ہے تو اس سے توقعات کیوں نہ بڑی باندھی جائیں۔جب تک آپ کا خواب بڑا نہیں ہو گا آپ کی سوچ اور آپ کا فلسفہ بھی بڑا نہیں ہوسکتا۔اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں اور توانائیوں کو  چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی نذر  ہر گزنہ کریں۔                          آپ دوسروں کی پرواہ کریں گے تو دوسرے بھی آپ کی پرواہ کریں گے۔آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو آپ کو بھی عزت ملے گی۔آپ بانٹنا شروع کریں گے تو آپ کو ملنا شروع ہو جائے گا۔اور حتمی طور پر آپ کامیاب ہوں گے۔ بروس لپٹن کے بقول جب تم یقین کر لیتے ہو تو تمھارا ذہن رستہ بھی تلاش کر لیتا ہے۔جب آپ بڑا خواب دیکھتے ہیں پھر ...

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک...

قدرت کا گفٹ پیک

بلاشبہ قدرت بہت فیاض ہے اور اس فیاضی کا بھرپور مظاہرہ اس نے ہر انسان کو کسی نہ کسی ٹیلینٹ سے نواز کر کیا ہے مگر ہر ایک اس ٹیلنٹ کو استعمال نہیں کرتا. دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں. پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس کوئی ٹیلینٹ، ہنر یا صلاحیت ہو (جو سبھی کے پاس ہوتا ہے) لوگوں کی دوسری قسم میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر موجود ٹیلنٹ سے واقف ہوتے ہیں (ہم میں سے چند لوگ) تیسری قسم میں ان لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے جو اپنے ہنر، صلاحیت یا ٹییلینٹ کو استعمال بھی کرتے ہیں (یہ اہلیت بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے). طالب علمی کے زمانے میں ہر نوجوان یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اسے زندگی کی حرارت، جینے کی امنگ اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے.انہیں اپنی خاصیتوں کا بخوبی علم ہوتا ہے. وہ اپنے خوابوں پر یقین رکھتے ہیں مگر جب پیشہ منتخب کرنے کا مرحلہ سامنے آتا ہے تو وہ اپنی  صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر اپنی اسناد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں. تب ہم درحقیقت اپنی دلچسپی اور قدرت کی عطا کردہ تخصیص کو نظر انداز کرتے ہیں اور نتیجہ میں ہماری اپنی صلاحیتیں مٹنے لگتی ہیں.  اسٹیفن کنگ کے بقول "ٹیلنٹ کبھی بھی...