چین میں پیدا ہونے والے "لی ہوا" کو 18 سال کا ہونے پر ریڑھ کی ہڈی کا انتہائی خطرناک بگاڑ تشخیص ہوا جس کے سبب اس کا وجود بالکل درمیان سے چمٹے کی مانند مڑ گیا تھا۔ اس جیسی زندگی کا تصور کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن اسے 28 سال تک دنیا کو نیچے سے اوپر کی طرف یعنی الٹا دیکھتے ہوئے اسی طرح رہنا پڑا۔ اس کے جسم کے 3 حصے مربوط دکھائی دیتے تھے۔اس کا چہرہ اس کے پیر کے پنجوں کے مقابل نظر آتا تھا اور دونوں ہاتھ بالکل پیروں کے متوازی زمین کی طرف لٹکے رہتے تھے. "لی ہوا" نے زندگی کا بیشتر حصہ اسی جسمانی تکلیف میں گذارہ. وہ کمر کے بل لیٹ نہیں سکتا تھا. وہ ہمیشہ اسی ایک پوزیشن میں کھاتا، نہاتا اور سویا کرتا تھا مگر تصویر کا اس سے بھی بدترین دوسرا رخ یہ ہے کہ اس کی جسمانی حالت انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے کوئی ایک بھی ڈاکٹر اس کا علاج کرنے پر تیار نہ تھا۔ وہ سب ایک حقیقی خطرہ مول لینے سے خائف نظر آتے تھے کیوں کہ اس حالت میں کوئی بھی سرجری اس کو باآسانی موت کے منہ میں دھکیل سکتی تھی۔ "لی ہوا" کی والدہ نے بتایا کہ "میں اسے کئی جگہوں پر لے کر گئی لیکن کوئی بھی علاج کارگر ثابت نہ ہوا"۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے بیٹے کو اس طرح جیتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے 28 سال گزرنے کے بعد بھی یہ امید زندہ رکھی کہ ایک دن "لی ہوا" عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکے گا اور ان کے درمیان سیدھا کھڑا ہو کر چل سکے گا لہذہ ایک ایسے ہی حقیقی بہادر ڈاکٹر کی تلاش میں انہوں نے سارے چین کا سفر کیا جو "لی ہوا" کا علاج کرنے کا "خطرہ" مول لینے کو تیار ہو۔ سال ہا سال انہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی مگر پھر ان کی ملاقات ڈاکٹر ٹاو ہوئ رین سے ہوئی جو "لی ہوا" کے علاج کی صورت میں ایک حقیقی خطرہ مول لینے پر آمادہ تھے. ڈاکٹر ٹاو کے سامنے ناکامی کا امکان ننانوے فی صد تھا جب کہ کامیابی کی صرف ایک فی صد امید تھی. مگر انہوں نے اپنی پوری توجہ اور ساری اہمیت اس ایک فی صد امید پر مرکوز کردی. ڈاکٹر ٹاؤ "لی ہوا" کے علاج کے لئے دو ہفتوں کی سوچ بچار کے بعد ایک بلاآخر ایک منصوبہ پر پہنچنے پر کامیاب ہوئے جو منصوبہ کم اور "پاگل پن" ذیادہ لگ رہا تھا جس کے مطابق پہلے انہیں "لی ہوا" کے جسم کی ہڈیاں ایک ایک کر کے توڑنے اور پھر انہیں دوبارہ جوڑ کر "لی ہوا" کے جسمانی ڈھانچے کی ازسر نو تشکیل کرنا تھی۔ ڈاکٹر ٹاؤ کا کہنا تھا کہ "ہم جس آپریشن کے بارے میں لی ہوا کے لئے منصوبہ بنا رہے ہیں وہ بہت چیلنجنگ ہے۔ ہمارے لئے یہ بالکل ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے کی طرح ہے"۔ انہوں نے ایک کے بعد دوسری ہڈی توڑنے کے لئے 4 دیوانہ وار قسم کے آپریشن کیے۔ کسی بھی ایک ہڈی کا غلط ٹوٹنا "لی ہوا" کو جان سے مارنے کے لئے کافی تھا لیکن بہت سال چمٹے اور انگریزی حرف تہجی "یو" کی الٹی ہوئی شکل کی سی حالت میں جھکے رہنے کی اذیت نے "لی ہوا" کے اندر یہ خطرہ مول لینے کی ہمت اور ٹھیک ہونے کی امید جگا دی تھی. یہ سارا دورانیہ سبھی کے لئے بہت صبرآزما تھا. یہ برسوں کا یقین اور کئی دنوں کی محنت تھی جس نے کام کر دکھایا۔ "لی ہوا" کی والدہ کئی سال پہلے ہار سکتی تھیں۔ ڈاکٹر ٹاؤ بھی دوسرے ڈاکٹروں کی طرح کندھے اچکا کر "لی ہوا" کا علاج کرنے سے انکار کر سکتے تھے اور پیدائش سے 28 سال کی عمر تک زمین کی طرف جھکا شخص اس دنیا کو چھوڑ سکتا تھا اور آسانی سے اپنی زندگی ختم کرسکتا تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی ایسا نہیں کیا اسی وجہ سے وہ ہوا جو بلامبالغہ کسی معجزہ سے کم نہیں۔ تین دہائیوں کی تکلیف دہ امید کے بعد ناممکن آخر کار ممکن ہوگیا۔ برسوں سے زمین کی طرف جھکا ہوا "لی ہوا" اب سیدھا کھڑا ہے۔
صرف ایک سیکنڈ کے لئے تصور کرنے کی کوشش کریں. زندگی اس طرح گزارنا ، دنیا کو الٹا دیکھنا ، کبھی اپنی کمر کے بل لیٹنے کے قابل نہ ہونا ، ہر ضرورت کے لئے اپنی ماں کا محتاج ہونا ۔ پہلی بار واکر پکڑ کر سیدھے کھڑے "لی ہوا" نے ہچکیوں سے روتے ہوئے کہا ، "آپریشن کے بعد میں آخر کار پہلی بار اپنی والدہ کو سامنے اور قریب سے دیکھ سکتا ہوں۔ وہ بوڑھی دکھائی دیتی ہیں اور ان کے بال سفید ہوچکے ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ وہ پوری زندگی میری دیکھ بھال نہیں کرسکتی تھیں۔ امید ہے میں بہت جلد صحت یاب ہوسکوں گا تاکہ جلد ہی انہیں میری دیکھ بھال کی ذمہ داری کے بھاری بوجھ سے نجات مل سکے۔ " کتنی خوبصورت بات ہے کہ ہمارے درمیان ایک شخص جسے کبھی عام انسانوں کی طرح زندگی جینا نصیب نہیں ہوا تھا اب آخر کار وہ ہمارے درمیان سیدھا کھڑا ہو سکتا ہے. ہمارے ساتھ چل سکتا ہے۔28 سال بعد ہی سہی مگر اب وہ اس قابل ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پی سکے. ایک جھکا ہوا آدمی جس نے دنیا کو الٹا دیکھا اب سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ سکتا ہے۔
"لی ہوا" کی کہانی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جب تک ہمارے اردگرد لوگ ہم سے نا امید نہ ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک خود ہم اپنے آپ سے نا امید نہ ہوں اور خود ر بھروسہ کرتے ہوں تو بڑے سے بڑا ناممکن بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ بلامبالغہ امید ہر کرشمہ دکھا سکتی ہے۔
تحریر: شاہد حبیب ایڈوکیٹ
03332472648
ذبردست ماشاءاللہ۔ ان اللہ علی کل شئ قدیر
جواب دیںحذف کریںامید پر ھی دنیا قائم ھے امید ارادوں کو جنم دیتی ھے اور مضبوط ارادہ کامیابی کی دلیل ھے
جواب دیںحذف کریںMasha Allahk
جواب دیںحذف کریںخوب صورت انداز اور امید سے بھر پورتحریر۔
جواب دیںحذف کریںانسان بھی عجیب مخلوق ہے، ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنا آسان لیکن کسی کام کو مستقل مزاجی سے کرنا حد درجے مشکل۔
صحیح کہا گیا ہے کہ استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ لگے بندھے انداز فکر سے اوپر اٹھ کر جینا ہی اصلاً جینا ہے۔ والدین اور اساتذہ کے کرنے کا کام ہی یہی ہے کہ اپنے بچوں اور شاگردوں کی اس طرح تربیت کریں کہ نہ صرف وہ عملی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں بلکہ دوسروں کو بہترین نفع دیں اور خود بھی اس سے مستفید ہوں۔