ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ لوگ اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک...
Easy way To Success زمانہ طالب علمی میں کھبی اساتذہ تو کبھی ہم جماعت اکثر دلچسپ سوالات اور پہیلیاں پوچھا کرتے تھے جن سے زندگی بھر کے لیے عقل و دانش سے بھرپور سبق ملتے تھے. اسکول کے زمانے میں اسی طرح کا ایک سوال ایک استاد نے ہم سے کیا تھا جب انہوں نے چاک سے بلیک بورڈ پر ایک لیکر کھینچی (تب وائٹ بورڈ اور مارکر کا رواج نہ تھا) اور پھر پوری کلاس کو چیلینج کیا کہ کون اس لکیر کو چھوئے یا مٹائے بغیر چھوٹا کر کے دکھا سکتا ہے؟ لکیر کو آگے یا پیچھے سے مٹائے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا مگر ٹیچر کی طرف سے تو اسے چھونے کی بھی اجازت نہ تھی.ہم سب شش و پنج میں پڑے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے رہے مگر کسی کے پاس اس معمہ کی سلجھن نہ تھی لہزہ تھوڑی دیر بعد ہی ہار مان گئے. تب ہمارے لائق استاد نے بلیک بورڈ پر اپنی کھینچی ہوئی لکیر سے ذرا نیچے ایک دوسری لکیر کھینچی جو پہلی لکیر سے کافی زیادہ لمبی تھی اور پھر پوری کلاس کو دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں جواب دیا "اب ہوگئ پہلی لکیر چھوٹی؟" تمام طالب علموں نے حیرت سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا. اس سوال اور اس کے جواب میں ہم سب کی زندگیوں کو بدل ...