نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک...

دل جیتنے والے افراد



IMPRESSIVE AND HEART WINNING PERSONALITY.                  
ہر روز کی طرح اس روز بھی مختلف عدالتوں میں پیش ہونے کے بعد میں ایک دیوانی مقدمہ میں مدعی مقدمہ کی جانب سے پیشی کے لئے ایک سول کورٹ میں حاضر ہوا.محترم حج صاحب بیشتر مقدمات نمٹا کر کمرہ عدالت سے اپنے چیمبر میں تشریف لے جا چکے تھے. تاہم درجنوں مقدمات کی فائلوں میں گھرا بے چارہ پیشکار اپنے سامنے موجود کاز لسٹ یعنی فہرست مقدمات اور فائلوں میں گم تھا. صبح سے سائلین, وکلاء اور حج صاحبان کے درمیان فائلوں کے انبار سے طلب کیے جانے پر مطلوبہ فائل تلاش کرکے محترم جج صاحب کو پیش کرتے , اس پر ملنے والی ہدایات کو لکھتے , وکلاء اور سائلین کے تند و تلخ سوالات کے کبھی ان کے حسب منشاء تو کبھی خلاف منشاء جوابات دیتے اور ان سےدرخواست اور عرضیاں وصول کرتے کرتے وہ تھکا ہوا اور مضمحل نظر آرہا تھا. میں اسے گذشتہ کئی سالوں سے یہی کام کرتے دیکھ رہا تھا جو اب یقینی طور پر اس کے لئے پرلطف نہیں رہا تھا. اسے دیکھ کر یکلخت میرے دل میں خواہش بیدار ہوئی کہ کیوں نہ اس سے کوئی ایسی بات کی جائے جو نہ صرف اس کے مزاج کے لئے سکون آور ٹانک ثابت ہو بلکہ اس کو مجھے پسند کرنے پر بھی مجبور کردے. لیکن سوال یہ تھا کہ کون سی بات؟ وہ اپنے کام میں بڑا مشاق تھا. مجھ پر نظر پڑتے میرے دریافت کیے بغیر فوراً بولا "جی شاہد صاحب آپ کے مقدمہ نمبر 1915/2019 میں مدعاعلیہ نے آج جواب دعوی داخل کردیا ہے. پیشی کی اگلی تاریخ آپ کون سی لینا چاہیں گے؟"اس کے اتنا کہنے نے مجھے میرے سوال کا جواب فراہم کر دیا. .مجھے اس کی جائز تعریف کا موقعہ مل گیا. میں نے کمال حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوش گوار لہجے میں کہا "تم نے تو مجھے کچھ پوچھنے کا موقعہ ہی نہیں دیا. مجھے دیکھ کر ہی درجنوں مقدمات میں سے تمہیں میرے کیس کا نمبر اور اس پر ہوئی آج کی پوری کاروائی تک یاد آگئ. کاش تم جیسی کمال کی یادداشت میری بھی ہوتی". میرے اتنا کہنے کی دیر تھی. تھکے ماندے پیشکار کے چہرے سے پژمردگی اور تناؤ کے تاثرات رخصت ہوگئے اور ان کی جگہ ایک تشکر آمیز مسکراہٹ نے لے لی. اس نے منکسرالمزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا "شاہد صاحب. چند سال پہلے جیسی یادداشت تو اب نہیں رہی. بہرحال سینئر وکلاء کے مقدمات تو ہمیشہ ذہن میں رہتے ہیں". میں نے دوبارہ اس کی خوبی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا "ہوسکتا ہے مگر یوں وکلاء کے ناموں اور چہروں سے ان کے مقدمات کو یاد رکھنا کمال کی بات ہے. یہ کوئی معمولی وصف نہیں." اس کے چہرے پر خوشی کے تاثرات دوچند ہوگئے. ہمارے درمیان مزید چند خوش گوار جملوں کا تبادلہ ہوا. اس نے مجھے اگلی تاریخ دیتے ہوئے کہا "حج صاحب بھی کبھی کبھی میری اس کی خاصیت کی تعریف کرتے ہیں". اس نے مجھے چائے پلانے کی پیشکش بھی کی جو میں نے کسی اور وقت کے لیے مؤخر کردی. اس نے میرے ایک پرانے مقدمہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اس میں بحیثیت وکیل میری کارکردگی پر مجھے سراہا.
میرا اندازہ ہے اس دن وہ پیشکار کافی دیر تک میرے ان تعریفی کلمات کے زیراثر رہا ہوگا. اس کا موڈ خوش گوار رہا ہوگا. ہوسکتا ہے اس نےان تعریفی کلمات کو یاد کرتے ہوئے لنچ اور چائے کا لطف اٹھایا ہو. میں نے ایسا آخر کیوں کیا؟ کیا واقعی میرے لئے ایسا کرنا ضروری تھا؟ کیامیں نے یہ توصیفی کلمات اپنے مقدمہ پر ہوئی کاروائی جاننے کے لئے ادا کیے تھے؟ مگر اس کی تفصیل تو اس نے بغیر دریافت کیے ہی بیان کردی تھی. وہ تو مجھے میری مرضی کے مطابق تاریخ دینے کو بھی تیار تھا. پھر میں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ سوال میں نے خود سے بھی دریافت کیا. جی ہاں. اس سب کے عوض میں نے ایک احساس حاصل کیا. ایک طمانیت کا احساس کہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی میں نے اس کی زندگی کی بے کیفی کو مسرت سے تبدیل کر دیا تھا. میں نے اسے یہ احساس دلایا کہ وہ اپنی عدالت کے نظام کا ایک بڑا اہم اور کارآمد پرزہ ہے اور یہ کہ اوروں کو اس کی اہمیت کااعتراف بھی ہے. ساتھ ہی میرے ان توصیفی کلمات نے اس کی یادداشت میں محفوظ میری سی وی کو اور بھی شاندار بنا دیا ہوگا. ہوسکتا ہے رات اس نے اپنے گھر والوں کے سامنے اپنی اس تعریف کا ذکر کیا ہو اور ساتھ ہی تعریف کرنے والے کا بھی. یوں میرا نام اور میرا تذکرہ اس کے گھر تک پہنچ گیا ہو۔.
مجھے اس سے کسی صلہ کی تمناء نہ تھی پھر میں نے کیوں اس کی تعریف کی؟ جواب بہت سادہ ہے. ہم ہمیشہ ناکام رہیں گے اگر ہم بلامعاوضہ اور بغیر غرض دوسروں کا حوصلہ نہیں بڑھاسکتے. ان کی اعلی خوبیوں کا اعتراف نہیں کر سکتے. جو اس پیشکار کی تعریف کر کے میں میں نے پانا چاہا وہ میں حاصل کرنے میں بخوبی کامیاب رہا.
پروفیسر جان ڈیوی کے بقول انسانی فطرت کی سب سے بڑی خواہش اپنی ذات کو اہمیت دینا ہے جب کہ پروفیسر ولیم جیمز داد و تحسین کی خواہش کو انسانی فطرت کا سب سے گہرا اصول قرار دیتے ہیں. ہم سب اپنی صلاحیتوں, خوبیوں, خدمات اور اہمیت کا اعتراف چاہتے ہیں. خوشامد نہیں مگر جائز تعریف کو سبھی اپنا حق سمجھتے ہیں اور ایسا سمجھنا ہر گز ناجائز نہیں. جس اصول کی تبلیغ تمام ادیان و مذاہب نے کی دوہزار سال قبل حضرت عیسی علیہ السلام نے اسے ایک فقرے میں یوں سمودیا "دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرو جس توقع تم ان سے خود اپنے لئے رکھتے ہو".۔
 مفہوم حدیث ہے کہ تم میں سے بہترین وہی ہے جو اپنے بھائ کے لئے وہی پسند کرے جو خود اپنے لیے پسند کرے.
چارلس شواب نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے کہ ہم اپنے دوستوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جی بھر کر ہمیں داد دیں اور کھل کر ہماری تعریف کریں. ظاہر سبھی اسے پسند کرتے ہیں. لہذہ ہمیں دوسروں کو وہی دینا چاہیے جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں. آپ کو دوسروں کی تعریف کے لئے ضلع کا ڈپٹی کمشنر یا بیرون ملک سفارتکار تعیناتی تک کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں. ہم اپنی گفتگو میں "آپ کا بہت شکریہ", "ازراہ کرم", "برائے مہربانی", "معاف کیجیے گا"., "پلیز", "تھینک یو", "سوری" جیسے الفاظ کا کثرت سے استعمال کرکے اپنی اکتاہٹ بھری زندگی کو سرشاری کے جذبات سے معمور کرسکتے ہیں.
روزمرہ زندگی میں ہر شخص جس سے ہمارا سامنا ہوتا ہے کسی نہ کسی طرح خود کو ہم سے بہتر خیال کرتا ہے. لہذہ ہر شخص کا دل جیتنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسے کسی نہ کسی طرح یہ باور کروایا جائے کہ ہم اس کی جگہ پر اسے تہہ دل سے اہم خیال کرتے ہیں. یہاں ایمرسن کا یہ قول یاد رکھے جانے کے قابل ہے "میں جس شخص سے ملتا ہوں وہ کسی نہ کسی طرح مجھ سے افضل ہوتا ہے. اس طرح میں اس کی شخصیت کو سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہوں". ہم جتنا وقت اپنے آپ کو اہم سمجھتے رہنے اور دوسروں سے اس کا اعتراف کروانے کے جتن کرنے پر صرف کرتے ہیں اس سے بہت کم وقت میں ہم اپنے اردگرد دوسروں کو اہمیت دے کر ان سب کی نظروں میں اہم ترین بن سکتے ہیں. دوسروں سے ان کے بارے میں بات کیجیے. ان کی دلچسپیوں کو نوٹس کیجیے.لباس, مشاغل غرض چھوٹی سے چھوٹی بات جو ان کے ذوق و شوق سے متعلق ہے اسے اہمیت دیجیے.انہیں ان کی اہمیت کا احساس دلائیے. وہ گھٹنوں آپ کی بات سنیں گے. اسے اہمیت دیں گے. آپ ان کی نظروں میں اہم ترین ہوں گے.یہ آپ کے لئے کامیابی کا ایک بہتری اور آزمودہ اصول ہے۔.
تحریر: شاہد حبیب ایڈوکیٹ
+923332472648

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟

Who Will Train my Son?   سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید  صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں ...

یقین کی طاقت

حضرت واصف علی واصف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بڑی منزل کا مسافر کبھی چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا۔انسان کے قد  کے قد کا پتا اس کےجھگڑوں سے چلتا ہے۔     بقول اشفاق احمد صاحب جنہیں منزل کو پانا ہوتا ہے۔وہ کتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔اللہ کی رحمت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کو بڑا سوچنا چاہیئے۔یہ بڑا جرم ہے کہ انسان اپنی سوچ کو محدود کر لے۔دینے والی ذات اتنی بڑی اور لا محدود ہے تو اس سے توقعات کیوں نہ بڑی باندھی جائیں۔جب تک آپ کا خواب بڑا نہیں ہو گا آپ کی سوچ اور آپ کا فلسفہ بھی بڑا نہیں ہوسکتا۔اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں اور توانائیوں کو  چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی نذر  ہر گزنہ کریں۔                          آپ دوسروں کی پرواہ کریں گے تو دوسرے بھی آپ کی پرواہ کریں گے۔آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو آپ کو بھی عزت ملے گی۔آپ بانٹنا شروع کریں گے تو آپ کو ملنا شروع ہو جائے گا۔اور حتمی طور پر آپ کامیاب ہوں گے۔ بروس لپٹن کے بقول جب تم یقین کر لیتے ہو تو تمھارا ذہن رستہ بھی تلاش کر لیتا ہے۔جب آپ بڑا خواب دیکھتے ہیں پھر ...

دو باکمال شاعر، دو خوب صورت خیال

کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا تو بڑے پیار سے بڑے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو اور بے تابی سے فرقت کے خزاں لمحوں میں تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا جب کبھی موڈ میں ا کر مجھے چوما کرتی تری ہونٹوں کی حدت سے میں دھک سا جاتا رات کو جب بھی تو نیندوں سے سفر پر جاتی مرمریں ہاتھ کا اک تکیہ سابنایا کرتی میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا تیری زلفوں کو ،ترے گال کو چوما کرتا جب بھی تو بند قبا کھولنے لگتی جاناں اپنی آنکھوں کو ترے حسن سے خیرا کرتا مجھ کو بےتاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا شاعر: سید وصی شاھ کاش میں ترے بن گوش کا بندا ہوتا کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں صبح کوگرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول میرے کھو جانے پرہوتا ترا دل کتنا ملول تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ...