ایک عام انسان ہمیشہ اس الجھن کا شکار نظر آتا ہے کہ اس
سے اس کا رب بحیثیت مخلوق چاہتا کیا ہے؟
کیا کچھ ایسا جس کا کرنا شاید ہمارے لئے ممکن ہی نہیں؟
کیا ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ اللہ کے دئے اسائنمنٹس پورے کر سکیں؟
آئیے جواب قرآن اور حدیث میں تلاش کرتے ہیں۔
!سورہ النساءمیں اللہ نے فرمایا
اللہ چاہتا ہے کہ خاص تمھارے لئے زندگی کو ہلکا کر دے۔
اور انسان کو تو کمزور ہی بنایا گیا۔
تو اگر کام بہت بھاری لینا تھا تو کمزور کیوں بنایا؟ ہمارا آخری ٹھکانہ جنت ہوگا کہ جہنم؟۔جنت کا اعلی ترین درجہ فردوس ہے۔سورہ مومنون میں اعلان کیا گیا کہ
ان کو فردوس وراثت میں ملے گی۔
ایک حدیث کا ترجمہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لئیے فردوس میں گھر بنایا
گویا اس کائنات کے ہر انسان کے لئےاللہ کا پلان یہ ہے کہ وہ جنت کے اعلی ترین درجے میں جائے۔عام مشاہدہ ہے کہ ہم اکثر و بیشتر ملاقات میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ آپ مجھ سے بہترین ہیں میں بہت گنہگار ہوں۔یہ کس نے ہمیں مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو گہنگار قرار دیں؟ہم اپنی نیکیوں کی قبولیت کے حوالے سے بھی کیوں شک میں مبتلا رہتے ہیں؟
نبی رحمت صلعم جب صحابہ کو جوڑیوں کی شکل میں دعوت دین کے لئے دور دراز دیہات کی طرف روانہ فرماتے تو انہیں نصیحت کرتے
تم دونوں جاؤ۔لوگوں کےلئے کام آسان کرنا انہیں مشکل میں نہ ڈالنا۔
ہم نے تو خود کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔سورہ العصر میں بہت سادہ لفظوں میں فرمایا۔
عصر کی قسم انسان نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے۔ اور صبر کی تاکید اور حق بات کی تلقین کرتے رہے۔
یہاں لفظ صالحات کا استعمال ہوا ہے۔جو مقدار کے لحاظ سے بہت تھوڑے نیک اعمال یعنی اتنے تھوڑے کہ دونوں ہاتھوں سے کم میں گنے جا سکیں۔جب کہ بہت زیادہ نیک اعمال کے لئیے اعمال صالحہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔یعنی ہمارے کرنے کے لئیے نیک اعمال کی لسٹ بہت لمبی نہیں ہے۔کچھ غلیظ افعال کو گناہ قرار دے کر ان سے دور رہنے کو کہا گیا۔اور چند اعمال کو ایمان کی بنیاد قرار دے کر کرنے کو کہا گیا ہے۔
ماشاءاللہ عمدہ
جواب دیںحذف کریں