نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خاموشی ۔۔۔طاقت کی علامت

 ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا. یونانی فلسفی افلاطون نے 2 ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ احمق کچھ کہنے کے لئے بولتے ہیں جب کہ دانا تب بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو. کیا آپ نے کبھی سوچا کہ عام طور پر خاموش رہنے والے لوگ دنیا میں اس قدر کیوں کامیاب ہیں؟ ماہرین کا ایک نظریہ جو انسانوں کو شخصی بنیادوں پر 2 اقسام میں تقسیم کرتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کامیابی کے لئے درکار توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک قسم کے انسان وہ کہ جنہیں عام طور پر باہر رہنے اور اور دوست احباب اور سبھی جاننے والوں میں گھرا رہنے رابطے میں رہنے اور گفتگو اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت سے توانائی ملتی ہے انہیں' ایکسٹروورٹ 'کہا جاتا ہے جبکہ جنہیں عام طور پر خاموش رہنا اور اپنا زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گذارنا توانائی بخشتا ہو ایسے لوگ 'انٹروورٹ 'کہلاتے  ہیں۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہاں ایکسٹرورٹ ' یا ' انٹروورٹ ' ہونا کیوں کر کسی کو کامیابی کے ساتھ جوڑتا ہے؟ ایکسٹراورٹ  لوگ  اکثر بطور ماہر فرد خاص طور پر ان فیلڈز سے وابستہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ بولنے اور نیٹ ورک

تربیت صرف بیٹی کی اور بیٹا۔۔۔؟؟




Who Will Train my Son?


 سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر پوری قوم شدید
 صدمہ اور اضطرابی کیفیت میں ہے. اظہار افسوس کے لیے الفاظ بھی شرمندہ شرمندہ سے لگنے لگے ہیں مگر قابل غور بات اس اندوہ  ناک واقعہ پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح کے ردعمل کا آنا ہے گویا کچھ بالکل نیا ہوا ہے. معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ماں کی اجتماعی آبروریزی بلاشبہ شیطانیت کی آخری سطح کا بدترین مظاہرہ ہے مگر واقعہ میں ملوث انہی ملزمان کی جانب سے سنہ 2013 میں دوران ڈکیتی ماں بیٹی کی آبروریزی, اس سے قبل سرپنچوں کے حکم پر بھری پنچایت کے سامنے مختاراں مائی کے ساتھ برتی گئ حیوانیت اور اس سے قبل کراچی کی ضعیف والد کے ساتھ جاتی معصوم سسٹرز کا بعد از اغواء اجتماعی بیحرمتی کے بعد وحشیانہ قتل اور اس سے قبل سانحہ نواب پور اور اس سے پہلے اور بعد  رونماء ہونے والے ایسے اور کتنے سانحات گویا سانحہ موٹروے پاکستانیوں کے لیے کسی بھی طرح سے "حالات حاظرہ" کی خبر نہیں بلکہ یہ تو میرے نزدیک "حالات مستقلہ" ہیں. ہم ایک دائمی سانحے میں جی رہے ہیں جہاں ظالم و مظلوم کے صرف نام اور جائے وقوعہ تبدیل ہوتی ہے مگر ظلم کی داستاں وہی کی وہی اور دکھ کی کیفیت ہمیشہ یکساں رہتی ہے. ہم کانٹوں بھری جھاڑیوں کے درمیاں چل رہے ہیں بس کبھی کبھار کوئی کانٹا زیادہ بڑا اور نوکیلا ہوتا ہے تو چبھن ذرا زیادہ محسوس ہوتی ہے. 
کمال یہ ہے کہ ان سانحات کا شکار خواتین بالخصوص وہ جو ظلم پر خاموش رہنے کے بجائے حصول انصاف کے لیے مقدمات کا اندراج کرواتی ہیں وہ ہمارے معاشرے میں Taboo بن کر باقی زندگی گزارتی ہیں نام, شناخت, پتہ, شہر اور ملک تک چھوڑنے پر مجبور کردی جاتی ہیں.  ایک بار ظلم کا سامنا کرنے کے بعد بقیہ زندگی معاشرے کے ناقابل فہم رویہ کا سامنا کرتے گذارتی ہیں جب کہ ملوث ملزمان کم زور تفتیش اور قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا کر "باعزت" بری ہوجاتے ہیں اور پھر ساری زندگی باعزت  رہتے ہیں۔ اپنےگھر, خاندان, برادری, محلہ غرض پورے معاشرے میں باآسانی قبول کرلیا جاتا ہے ان کے لیے سب کچھ نارمل رہتا ہے. اصل میں تضادات سے بھری ہماری سوچ ہی ان سانحات کی بنیادی محرک ہوتی ہے. ہم گھریلو زندگی سے لے کر اپنی معاشرتی ذمہ داریوں تک کی ادائیگی میں اسی تضاد کے سبب ناکامی سے دوچار ہیں. ہمارے ہاں مرد پیدائش سے لے کر موت تک شتر بے مہار کی طرح آزاد زندگی گذارتا ہے. اسے پیدائشی سیکھا سکھایا فرض کرلیا جاتا ہے.اس پر شرم و حیاء کے تقاضے لاگو نہیں ہوتے. درحقیقت ہمارا سارا زور بہن اور بیٹی کی تربیت پر ہے. .گھر کے سبھی بڑے بچپن سے ہی بیٹی کی ذہن سازی شروع کردیتے ہیں. اسے نصیحتوں اور روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے. کیسے اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا ہے؟ کپڑے کیسے پہننے اور سنبھالنے ہیں؟ کس عمر کے بعد خاندان, جماعت اور محلہ پڑوس کے لڑکوں سے بات نہیں کرنی؟ ان کے ساتھ کھیل کود نہیں سکتی.  وہ قہقہہ نہیں لگاسکتی. نظر رکھی جاتی ہے کہ وہ کیا پڑھ اور لکھ رہی ہے. کس طرح کا میوزک سنتی اور پسند کرتی ہے؟ دینی اور معاشرتی تقاضے سمجھائے جاتے ہیں.  اسے ذہن نشین کروایا جاتا ہے کہ وہ کسی "ایک مرد" کی "امانت" ہے لہذہ امانت میں خیانت نہ ہونے پائے. اس "ایک مرد" کے ملنے تک اور ملنے کے بعد بھی خود کو اس کے لیے بچا بچا کر رکھنا ہے. اس کا موبائل پر کانٹیکٹس چیک کیے جاتے ہیں. بیل بجنے پر اسے دروازہ نہیں کھولنا. گھر میں مردوں کی غیرموجودگی میں بھی اگر دودھ والا آجائے تو بھی امی جان ہے دودھ لینے دروازے پر جائیں گی.
اس کے برعکس بیٹے کی ایسی کسی بھی تربیت کا کوئی تصور بھی ہمارے ہاں سرے سے موجود نہیں. اس کے لباس, چال ڈھال, اٹھنے بیٹھنے اور کھیلنے کودنے پر کسی طرح کی کوئی قدغن نہیں ہوتی. بیشتر گھرانوں میں تو اس کے گھر سے باہر رہنے کے دورانیہ پر بھی کوئی پابندی نہیں. کبھی بیٹے کو یہ یاد نہیں دلایا جاتا کہ "کل کو تمہاری شادی ہونی ہے". اسے نظریں نیچی رکھنے کی نصیحت نہیں کی جاتی. اس کے موبائل پر کونٹیکٹس چیک نہ کیے جاتے ہیں نہ کیے جاسکتے ہیں کیوں کہ پاس ورڈ لگا ہوتا ہے جس پر کوئی بھی "آخر کیوں؟" نہیں کہتا. سن بلوغت پر پہنچتے ہی اس کے افئیرز کا علم ہونے پر بھی والدین کو کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی. بیٹیوں پرسختی کرنے والدین بڑے فخر سے بیٹے کے بارے میں رشتہ داروں سے کہتے ہیں "کلاس کی ساری لڑکیاں اس پر مرتی ہیں" یا "دفتر کی ساری فیمیل کولیگز اس کے ساتھ لنچ پر جانے کے لیے پاگل ہورہی ہوتی ہیں". یہی والدین اپنے اسی بیٹے کی کنواری بہن کے ساتھ کسی غیر لڑکے کا نام سن کر اسے قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جب کہ بیٹے کے ساتھ واٹس اپ پر دن رات اپنی تصاویر شیئر کرنے والی تمام لڑکیوں کے نام انہیں ازبر ہوتے ہیں. بیٹے کا دھیان کبھی اس "ایک لڑکی" کی طرف دلایا ہی نہیں جاتا جو صرف اس کے لیے تخلیق کی گئ ہے. اسے منڈی میں "پسند کا مال چھاٹنے" کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے. بیٹے کی بدنظری پر کہا جاتا ہے اگر لڑکیاں ہی حیاء نہ کریں تو ہمارا تو پھر بیٹا ہے. الزام زلیخا ہی کو دیا جاتا ہے بیٹے کو یوسف بننے کی نصیحت نہیں کی جاتی.
ہمارے ہاں ایک کہاوت زبان زد عام ہے کہ "حیاء عورت کا زیور ہے" جب کہ حقیقت میں حیاء عورت ہی نہیں مرد کا بھی زیور ہے. قرآن کی سورہ النور میں مسلمان مرد و عورت کو شرم و حیا کا پیکر بن کر نگاہیں جھکا کر رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حدیث ہے کہ اگر ایک کسی مسلمان میں حیاء نہ رہے تو پھر جو چاہے کرتا پھرے (یہاں مسلمان مرد یا عورت  کی تخصیص نہیں کی گئ) جب کہ دوسری حدیث میں حیاء اور ایمان کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے کہ کوئی ایک رخصت ہوجائے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے. حیاء کو ایمان کے ستر درجوں میں سے ایک درجہ قرار دیا گیا۔ یہ اور ان جیسے کئ دوسرے ارشادات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حیاء کے معاملے میں مرد کو کوئی خاص استثناء حاصل نہیں۔.
منٹو نے کہیں بہت خوبصورت بات کہی کہ "چاہے دنیا کی تمام عورتیں برقع پہن لیں مرد کو حساب اپنی آنکھوں کا ہی دینا ہوگا".
ہمارے معاشرے میں بچیاں اس معاملے میں خوش قسمت ہوتی ہیں کہ رازداری یا اشاروں کنایوں میں ماں, شادی شدہ  بہنوں ،بھابھیوں سے تھوڑی بہت ہی صحیح مگر ازدواجی رہنمائ (Sex Exucation) مل جاتی ہے مگر ہمارے معاشرے کا بیٹا اس معاملے میں بڑا بدقسمت واقع ہوا ہے کیوں کہ اس کی ایسی کسی تربیت کا کوئی تصور ہی نہیں. باپ, بڑے شادی شدہ بھائی, ماموں, چچا یا کوئی اور مرد رشتہ دار لڑکے کی کبھی اس موضوع پر کوئی ڈھکی چھپی یا آدھی ادھوری سی رہنمائی بھی نہیں کرتے بلکہ اسے بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسے اس حوالے سے اولین آگہی پڑوس یا جماعت کے سب سے بدمعاش لڑکے سے ملتی ہے جو انسانی زندگی کے اس پہلو اور فطری بشری تقاضے کو کچھ اس قدر obnoxious بنا کر پیش کرتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں اس کا اخلاق نہیں بلکہ مزاج تباہ ہو کر رہ جاتا ہے جو پھر زندگی بھر درست نہیں ہوپاتا. بہت محتاط لفظوں میں پھر عورت اس کے نزدیک انسان نہیں محض جسم بن کر رہ جاتی ہے. وہ اس کے لیے بس ایک Sex Object ہوتی ہے. رہی سہی کسر شعر و ادب,  موسیقی, فلم, ڈرامہ, مصوری, ماڈلنگ, فوٹوگرافی غرض فنون لطیفہ کی تمام اصناف پوری کردیتی ہیں جہاں لب و رخسار, گھنی زلفوں, دراز قد و قامت, نشیلی آنکھوں, رسیلے ہونٹوں, رنگت, سراپے غرض عورت کے جسمانی خدوخال کے سوا اس کی کسی اور خاصیت پر بات کرنے کا چلن ہی نہیں ہے. یہ تمام عوامل مل کر مرد کو عورت کے معاملے میں اس قدر بھوکا بنادیتے ہیں کہ حلال اور جائز راستہ اور رشتہ مل جانے کے باوجود بسا اوقات اس کی یہ بھوک زندگی بھر ختم نہیں ہوتی. عام مشاہدہ ہے کہ اگر ایک 14 سال کی بچی بھی اگر اکیلی سڑک سے گذر رہی ہو تو عین ممکن ہے کہ برابر سے گذرنے والا 60 سالہ بوڑھا اسے چھونے کی کوشش کرے یا مڑ کر دیکھے اور یہ دیکھنا محض دیکھنا نہیں ہوتا بلکہ ایک مکمل نفسیات ہوتی ہے. پھر اسی نفسیات سے سانحہ موٹر وے جنم لیتا ہے تو کبھی قصور میں زینب یا کراچی میں کوئی مروہ درندگی کا نشانہ بنتی ہے جس پر ہم چار دن شورشرابہ کرتے ہیں. یہ کیسی مردانگی ہے  جو ایک مرد کی موجودگی میں عورت کو غیر محفوظ بنادیتی ہے۔ اس کے دل میں یہ اطمینان اور احساس نہیں جگاتی کہ یہ قوی مرد محافظ میرے اردگرد موجود ہیں اب مجھےکوئی خطرہ نہیں اب میں محفوظ ہی۔ سخت قوانین کے نفاذ  اور سرعام سزاؤں کا مطالبہ کر کے دوبارہ ذندگی کی  پرانی ڈگر پر رواں دواں ہوجاتے ہیں جب کہ درحقیقت ضرورت سخت قوانین اور سرعام سزاؤں سے زیادہ اپنی اور اپنی فیملی کی اصلاح اور تربیت کی ہے اور اس تربیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہمارے گھروں کےسبھی مردوں کو ہے۔.

تحریر: شاہدحبیب ایڈوکیٹ 
رابطہ 03332472648

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

Sharing of any types of Links and sectarian , communal, blasphemous, hateful comments is strictly prohibited.

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بھگت کبیر دوہا /Bhugat Kabir Quote

  پریتم ایسی پریت نہ کریو  ‎‏پریتم ایسی پریت نہ کریو ‎‏جیسی کرے کھجور ‎‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی ‎‏بھوک لگے پھل دور ‎‏پریت کبیرا، ایسی کریو  ‎‏جیسی کرے کپاس ‎‏جیو تو تن کو ڈھانکے ‎‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ ‎‏پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی ‎‏جل سوکھے اُڑ جائے ‎‏پریت تو کیجیو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے English Translation ‎‏Beloved , don't be such a ghost As the  palm does When it is sunny, there is no shade Hungry fruit away Phantom Kabira, do it Like cotton Live and cover your body Die, don't leave Don't be a ghost like a bird Let the water dry up and fly away The ghost is like a kegio fish Let the water dry up and die Hindi Translation प्रिय, ऐसा भूत मत बनो खजूर की तरह जब यह धूप होती है, तो कोई छाया नहीं होती है भूखा फल दूर प्रेत कबीरा, करो कपास की तरह अपने शरीर को जीते और ढँकें मरो, छोड़ो मत पक्षी की तरह भूत मत बनो पानी सूखने दें और उड़ जाएं भूत एक केगियो मछली की तरह है पानी सूखने दो और मर जाओ

یہ پاکستان ہے فرانس نہیں

      Sorry Mam,Motor way is not in France   دنیا کے مختلف براعظموں اور ملکوں میں پھیلے وہ  لاکھوں افراد جنہیں عرف عام میں اورسیز پاکستانی یا سمندر پار پاکستانی کہا جاتا ہے میری نظر میں بڑی عجیب و غریب مخلوق ہیں. یہ لوگ اپنی تعلیم ہنر اور قابلیت کی بنیاد پر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنا گھر محلہ گاؤں شہر اور ملک چھوڑ کر پردیس جاتے ہیں ان کی جدائی کادرد سہتے ہیں. اپنے رسوم و رواج ماحول معاشرت سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور بالکل مختلف رسوم و روایات زبان تہذیب اور بودوباش  کے درمیان بادل نخواستہ زندگیاں گذارتے ہیں. ذرا سوچئے کیا اتنی بڑی قربانی کیا صرف پیسہ کمانے کے لیے دی جا رہی ہوتی ہے؟ اتنی بڑی قیمت کیا صرف معاشی منفعت کے حصول کے لیے ادا کی جارہی ہوتی ہے؟ کیا ان کا اپنا وہ ملک جہاں بیرون ملک سے لوگ پیسہ کمانے آتے ہیں معاشی اعتبار سے اتنا بانجھ ہوسکتا ہے کہ خود اپنے شہریوں کو خاطرخواہ روزگار نہ مہیاء کرسکے.پاکستان میں  جہاں سعودی, چینی, ترک اور ملائشین بلینز میں سرمایہ کاری کر رہے ہوں اور افغان ایرانی بنگلہ دیشی شہری کامیابی سے کاروبار اور ملازمت کرتے ہوں وہ پاکستان اپنے شہریوں کو روزگا

کامیابی کی پہیلی

Easy way To Success زمانہ طالب علمی میں کھبی اساتذہ تو کبھی ہم جماعت اکثر دلچسپ سوالات  اور پہیلیاں پوچھا کرتے تھے جن سے زندگی بھر کے لیے عقل و دانش سے بھرپور سبق ملتے تھے. اسکول کے زمانے میں اسی طرح کا ایک سوال ایک استاد نے ہم سے کیا تھا جب انہوں نے چاک سے بلیک بورڈ پر ایک لیکر کھینچی (تب وائٹ بورڈ اور مارکر کا رواج نہ تھا) اور پھر پوری کلاس کو چیلینج کیا کہ کون اس لکیر کو چھوئے یا مٹائے بغیر چھوٹا کر کے دکھا سکتا ہے؟ لکیر کو آگے یا پیچھے سے مٹائے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا مگر ٹیچر کی طرف سے تو اسے چھونے کی بھی اجازت نہ تھی.ہم سب شش و پنج میں پڑے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے  رہے مگر کسی کے پاس اس معمہ کی سلجھن نہ تھی لہزہ تھوڑی دیر بعد ہی ہار مان گئے. تب ہمارے لائق استاد نے بلیک بورڈ پر اپنی کھینچی ہوئی لکیر سے ذرا نیچے ایک دوسری لکیر کھینچی جو پہلی لکیر سے کافی زیادہ لمبی تھی اور پھر پوری کلاس کو دیکھتے ہوئے  سوالیہ انداز میں جواب دیا "اب ہوگئ پہلی لکیر چھوٹی؟" تمام طالب علموں نے حیرت سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا. اس سوال اور اس کے جواب میں ہم سب کی زندگیوں کو بدل دینے